پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر میں ہونے والے معاہدے کے متعلق بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مذاکرات تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے نہیں بلکہ افغانستان میں برسرِِاقتدار افغان طالبان سے ہوئے ہیں اور دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ ہونے والا معاہدہ خفیہ رہے گا۔
پیر کی شب اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’خبر محمد مالک کے ساتھ‘ میں جب وزیرِ دفاع سے افغانستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تفصیلات کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا وہ اس کے تفصیلات نہیں بتا سکتے اور اسے خفیہ رکھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے میں تین چیزیں شامل ہیں: پناہ گزینوں کی واپسی، ٹی ٹی پی کی سرپرستی اور سیز فائر۔
پیر کی رات ہی جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے کہا تو بات نہیں کی اور اب کر رہے ہیں۔ ’میں واضح کر دوں کہ ہم نے ٹی ٹی پی سے بات نہیں کی، افغان طالبان سے بات کی ہے جن کی وہاں پر حکمرانی ہے اور ان کے ساتھ ہمارے غیر رسمی سفارتی تعلقات ہیں۔‘
’ہم قطعی طور پر ٹی ٹی پی سے مذاکرات نہیں کریں گے۔‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ قطر میں پاکستان اور افغان طالبان کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران ماحول میں تلخی نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’قطر اور ترکی کے ثالثوں کی موجودگی نے ماحول کو سنجیدہ بنایا ہوا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران تمام بحث مباحثہ قطری اور ترکی کے ثالثوں کی وساطت سے ہوتی رہی۔ ’ہمارے وفود کا بہت کم براہ راست رابطہ ہوا، تمام بات چیت قطری اور ترکی کے دوستوں کے ذریعے ہوتی رہی۔‘
’مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہو گا‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والا معاہدہ انتہائی مختصر ہے۔
وزیرِ دفاع کے مطابق، اس معاہدے میں جن چیزوں پر اتفاق ہوا ہے ان پر عملدرآمد کے لیے مذاکرات کا دوسرا دور ترکی میں ہو گا۔
اس سوال پر کہ کیا اس بار سیز فائر قائم رہے گی، خواجہ آصف کا کہنا تھا، ’میں امید ضرور رکھتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ محتاط بھی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کابل اور طاقت کے دوسرے مراکز سے مختلف آوازیں آ رہی ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ایک متحد حکومت کے طور پر ہمارے ساتھ یہ معاہدہ کریں۔ ’یہ نہ ہو کہ وہ کل کہنا شروع کردیں کہ فلاں شہر والے یہ کر رہے ہیں، ہم تو نہیں کر رہے۔‘
اس سوال پر کہ اگر اب دوبارہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو پاکستان کا کیا ردِ عمل ہو گا، خواجہ آصف کا کہنا تھا اس کا طریقہ کار ابھی طے ہونا باقی ہے تاہم ان کے خیال میں ایسا کچھ ہوتا ہے تو ثالثوں کو مداخلت کے لیے کہا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ معاہدے پر عملدرآمد کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے مذاکرات کے دوسرے دور کی تاریخ کا تعین ایک دو روز میں کر لیا جائے گا۔
قطر کی جانب سے جاری بیان کا افغانستان اور پاکستان کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں
میزبان کی جانب سے سوال پر کہ معاہدے کے بعد قطر کی جانب سے پہلے جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں بارڈر پر کشیدگی کا لفظ موجود تھا تاہم بعد میں جاری ہونے والے بیان میں سے یہ الفاظ نکال دیے گئے، وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ قطر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کا افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں۔
’ان [قطر] کے بیان میں پہلے بارڈر کا لفظ تھا، انھوں [افغان طالبان] نے بہت زور دیا کہ آپ بارڈر کا لفظ استعمال نہ کریں، یہ ہمارے لیے متنازع ہے اور اس سے آپ کی بطور ثالث حیثیت متاثر ہوتی ہے، اس کی وجہ سے انھوں نے کیا۔ یہ ان کے آپس کی بات ہے۔‘
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos