فائل فوٹو
فائل فوٹو

محسن نقوی نے کپتان تبدیل کرنے کا ریکارڈ بنادیا

میگزین رپورٹ :
پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی نے کم سے کم وقت میں سب سے زیادہ کپتان فارغ کرنے اور نیا کپتان لانے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ وزیر داخلہ نے کرکٹ کی باگ ڈور ملنے کے بعد سے صرف ڈیڑھ برس (مارچ 2024ء سے اکتوبر 2025ء تک) میں مختلف فارمیٹس میں کئی بار کپتان تبدیل کیے۔ انہوں نے اپنے دور میں بابر کو بحال کیا اور پھر ہٹایا۔ رضوان کو کپتان بنایا۔ پھر ہٹادیا۔ شاہین کو قیادت دی اور پھر انہیں فارغ کردیا۔ اب دوبارہ انہیں قیادت دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ جبکہ اگلی باری شان مسعود کی بتائی جارہی ہے اور ان کی جگہ شاداب خان کو لانے کی تیاری کی جارہی ہے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ مسلسل کپتانی تبدیل کرنا ناقص انتظامیہ کی نشانی ہے۔ ناقدین کی جانب سے کپتانی کے نظام کو ’’رولر کوسٹر‘‘ قرار دے کر اسے پاکستان کرکٹ کیلئے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔ کپتانی کی تبدیلیوں کے ٹائم لائن کے مطابق 29 مارچ 2024ء میں محسن نقوی نے شاہین آفریدی کو وائٹ بال کپتانی سے ہٹایا۔ اس کے بعد چیئرمین نے31 مارچ 2024ء کو بابر اعظم کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024ء کے لیے دوبارہ ٹی ٹوئنٹی کپتان مقرر کردیا۔ یکم اکتوبر 2024ء کو چیئرمین کی ہدایت پر بابر اعظم نے وائٹ بال کپتانی سے استعفیٰ دے دیا۔ 27 کتوبر 2024ء کو محمد رضوان کو وائٹ بال کپتان مقرر کیا گیا۔ 4 مارچ 2025ء میں سلمان علی آغا کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کپتان بنایا گیا اور 20 کتوبر کو رضوان کو فارغ کرنے کے بعد شاہین شاہ آفریدی کو قیادت کی ذمہ داری دی گئی۔ یوں وہ پاکستان کرکٹ کے 32 ویں ون ڈے کپتان بنے۔

24 سالہ شاہین نے اس سے قبل جنوری 2024ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ میچوں کی سیریز میں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت بھی کی تھی۔ تاہم 4-1 سے سیریز ہارنے کے بعد انہیں بابر اعظم سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ محمد رضوان کو فارغ کرنے کی چند اہم وجوہات پاکستان کرکٹ بورڈ سے جڑے ایک ذریعے نے یہ بتائی کہ، ٹیم انتظامیہ کا محمد رضوان سے بنیادی اختلاف ان کے بڑھتے مذہبی رحجان سے ہوا۔ وہ کیمپ یہاں تک کہ ڈریسنگ روم میں بھی باجماعت نماز کا اہتمام کیا کرتے تھے اور کھلاڑیوں کے ساتھ کیمپ اور سیریز کے دوران بھی حدیث شریف پر مبنی سیشنز کیا کرتے تھے۔ جبکہ دوسرا اختلاف ان کے بول چال سے بھی تھا۔ کمزور انگلش کی وجہ سے وہ اکثر پرینزٹیشن کے دوران مذاق بن جاتے تھے۔ ان کے مشہور جملے ’ون اور لرن‘‘ نے بالواسطہ طور پر ان کی کپتانی پر اثر ڈالا۔

اس حوالے سے قومی ٹیم کے سابق کپتان وکٹ کیپر راشد لطیف نے محمد رضوان کو برطرف کرنے میں ہیڈ کوچ مائیک ہیسن کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ لطیف کا یہ بھی خیال ہے کہ ہیسن نے یہ فیصلہ اس لیے کیا، کیونکہ رضوان نے غزہ- اسرائیل تنازعہ پر فلسطینیوں کی حمایت کھلے عام کی تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ فلسطینی پرچم لہرانے پر کوئی بھی بورڈ اپنا کپتان فارغ کر سکتا ہے؟ ایسا تو انگلش بورڈ بھی نہ کرے۔ درحقیقت مائیک ہیسن اس فیصلے کے پیچھے ہے۔ وہ ڈریسنگ روم میں اس ثقافت کو پسند نہیں کرتے۔ لطیف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ رضوان نے کپتان کے طور پر ڈریسنگ روم میں مذہبی سرگرمیاں شروع کیں۔ جو ہیسن کو پسند نہیں آئیں۔

سابق کپتان نے پی سی بی کے اس رویے کو ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کا عکاس قرار دیا۔ ادھر محمد حفیظ نے بھی ٹیم انتظامیہ پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ قیادت میں مسلسل تبدیلیوں سے ٹیم کی سمت اور کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ محمد رضوان کی بطور کپتان کارکردگی یہ تھی کہ انہوں نے 20 ون ڈے میچز میں 9 جیتے اور 11 ہارے۔ ان کی قیادت میں جیت کا تناسب 45 فیصد رہا۔ اکتوبر 2024ء میں رضوان کو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی دونوں فارمیٹ کی کپتانی سونپی گئی تھی۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی میں چاروں میچ ہارنے کے بعد قیادت سلمان علی آغا کو دے دی گئی۔