فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان نے بیک وقت دومحاذوں پر نمٹنے کی تیاری کر لی

امت رپورٹ:
بھارت اور طالبان رجیم کے گٹھ جوڑ کے سبب پاکستان کو بیک وقت دو محاذوں پر خطرات کا سامنا ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کے بقول ان خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے بنیادی تیاری کرلی ہے اور مزید تیاری کی جارہی ہے۔

اس سلسلے میں ’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے آصف ہارون کا کہنا تھا ’’بھارت ایک بار پھر اسی صورت حال میں پھنسنے جارہا ہے، جس کا شکار وہ چھبیس برس پہلے ہوا تھا۔ انیس سو ننانوے میں جب پاکستانی فوج کے چند سو بہادروں نے دراس۔ کارگل میں بھارت کو گھیرے میں لے لیا، تو اس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ واجپائی کی قیادت میں بوکھلائی ہوئی بی جے پی نے بھارتی فوجی کمان کو مالی اور انسانی نقصان کی پرواہ کیے بغیر ہر قیمت پر پاکستان کے زیرِ قبضہ بلند چوٹیوں کو خالی کرنے کا کام سونپا۔ تب اسرائیل نے پاکستانی چوکیوں کو تباہ کرنے کے لیے گائیڈڈ میزائل فراہم کیے تھے۔ لیکن یہ گائیڈڈ میزائل بھی اس کے کام نہ آسکے تھے۔ جس پر بھارتی فوج نے جنگی ٹرافیوں سے لدی اپنی ہر ایک مشہور انفنٹری یونٹ کو لانچ کیا۔ انہیں زیر قبضہ چوکیاں خالی کرانے کا مشن سونپا گیا تھا، لیکن یہ تمام کوششیں بھی رائیگاں گئیں اور بھارتی فوج ایک بھی چوکی واپس لینے میں ناکام رہی۔ یہاں تک کہ بھارتی اسٹریٹجک ریزرو سے انفنٹری یونٹوں کو نکال لیا گیا۔ بالآخر پاکستان کی حکومت کو غیر مشروط طور پر دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کے لیے بھارت کو امریکی زیر قیادت جی سیون سے مدد لینی پڑی۔ یوں فارورڈ پوسٹوں کو امریکی دباؤ پر رضاکارانہ طور پر خالی کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد بھارت نے میڈیا کے محاذ پر روایتی پروپیگنڈا کرکے اپنے طور پر کارگل کا تنازعہ جیت لیا، جو ایک سفید جھوٹ تھا۔‘‘

آصف ہارون کے مطابق’’بھارت کو ایک بار پھر اسی نوعیت کی صورت حال کا سامنا ہے اور وہ مئی کی گزشتہ جنگ (نام نہاد آپریشن سیندور) میں پاکستان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد غیر معمولی رویہ اختیار کر رہا ہے۔ لیکن اس بار منظر نامہ بدل گیا ہے۔ امریکہ اور یورپ بھارت کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کے بجائے خود تنہا کھڑا ہے اور اندرون و بیرون ملک ذلت کا شکار ہے۔ بیرونی ہتھکنڈوں میں اس کی معروف برتری کو پاکستان کی فوجی اور سیاسی سفارت کاری نے مجروح کر دیا ہے۔ بھارت کا واحد اسٹریٹجک پارٹنر اسرائیل خود مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ سب سے بڑی جغرافیائی سیاسی تبدیلی یہ ہے کہ امریکہ نے اپنی سیکورٹی کے پیرامیٹر کو ہندوستان سے پاکستان منتقل کر دیا ہے۔ پاک بھارت جنگ کی صورت میں امریکہ یا تو غیر جانبدار رہے گا یا پاکستان کی طرف جھک سکتا ہے۔ فی الحال، ٹرمپ نے دو روایتی حریفوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے اپنے ارادے کا اشارہ کیا ہے، اور ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالث کے طور پر اپنی خدمات پیش کی ہیں۔‘‘

ایک سوال پر آصف ہارون کا کہنا تھا ’’پاکستان کے خلاف اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بھارت کے پاس واحد آپشن افغانستان ہے۔ اس نے یہ جانتے ہوئے کہ افغانستان سنگین داخلی مسائل میں گھرا ہوا ہے، کمزور اور اپنی ناقص حکمرانی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے غیر مقبول ہو رہا ہے، اس کا انتخاب کیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی وجہ سے کابل بھی اپنے آپ کو گہرے نیلے سمندر اور سخت چٹان کے درمیان پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے، جو ایک پریشانی کا شکار بچہ بن چکا ہے۔ جبکہ بھارت اپنے فائدے کے لیے ٹی ٹی پی کو استعمال کر رہا ہے۔ قصہ مختصر اس وقت دہلی اور کابل دونوں ایک پیج پر ہیں اور انہوں نے مشرقی اور مغربی سرحدوں کو گرم کیا ہے، جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پراکسی جنگیں تیز کرکے پاکستان کو دو سمتوں سے سینڈوچ بنانے کا مذموم منصوبہ بنایا ہے۔ بھارتی سول اور ملٹری قیادت جو مئی سے جنگ کا ڈھول پیٹ رہی ہے، اب راجستھان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ بحیرہ عرب میں جارحانہ جنگی مشقیں کر رہی ہے۔

بھارت یہ تاثر دے رہا ہے کہ اگر اکتوبر کے آخر میں ایسا نہ ہوا تو نومبر میں جنوبی ہند سے بھارتی افواج پاکستان کے خلاف زبردست حملے کریں گی۔ مشترکہ حکمت عملی کے تحت بھارت نے کابل کو پاکستان کے خلاف سرحدی جنگ چھیڑنے کے لیے کہا، تاکہ مشرقی سرحد سے پاک افواج کو زیادہ سے زیادہ کم کیا جا سکے اور پراکسیز کے ذریعے اندرونی خطرہ بھی پیدا کیا جائے۔ بھارت اور افغانستان، دونوں کو پاکستان کی طرف سے مہلک جوابی کارروائی سے صدمہ پہنچا، جس نے مؤخر الذکر کو جنگ بندی اور مذاکرات کرنے پر مجبور کیا۔ تاہم دوحہ اور استنبول میں قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے دور طالبان رجیم کی بے حسی کی وجہ سے بے نتیجہ ثابت ہوئے، جس کا بنیادی مقصد وقت حاصل کرنا ہے۔ مذاکرات کے دوران وزیرستان میں سرحد پار دہشت گردی کے واقعات نے افغانستان کے منفی ارادے کو ظاہر کیا۔ کابل آزادانہ طور پر سوچنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے، اور بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔ یہ اسے بھارت کی طرف سے سکھایا جا رہا ہے، جو مکمل طور پر خطے کے امن کے خلاف ہے۔‘‘

جب آصف ہارون سے استفسار کیا گیا کہ دو محاذوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے کیا تیاری کی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا ’’پاک فوج نے جارحانہ انداز میں اپنی فوجی سفارت کاری کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اس تناظر میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے مصر اور اردن، اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ساحر شمشاد مرزا کے بنگلہ دیش کے دورے بہت اہم ہیںْ ان دوروں کا مقصد گہرے دفاعی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم شہباز شریف کا ریاض کا حالیہ دورہ بھی معنی خیز ہے ، جس کے ساتھ پاکستان پہلے ہی دفاعی معاہدے پر دستخط کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی مسلم ممالک پاکستان کے ساتھ سعودی پاک معاہدے کی طرح دفاعی معاہدوں پر دستخط کرنے کے خواہش مند ہیں۔ توقع ہے کہ ترکی، مصر اور بنگلہ دیش مستقبل کے دفاعی شراکت دار ہوں گے۔

اگر بھارت اور افغانستان، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حالات کو اپنے مذموم ارادوں کے لیے سازگار سمجھ رہے ہیں اور ستلج کے جنوبی علاقوں سے فوج کو داخل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو بھارت کو بھی اپنے بہت سے علاقوں میں اس سے بدترین صورت حال کا سامنا ہے اور اس کی ان کمزوریوں پر پاکستان نے کاری ضرب لگانے کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ پاکستان نے جو تیزی سے ایک ہارڈ راسٹیٹ میں تبدیل ہو رہا ہے، دونوں سازشی شراکت داروں کو ایک ہی سکے میں ادائیگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے اپنے کمزور مقامات کا مناسب خیال رکھتے ہوئے ، دونوں مخالفوں کی کمزوریوں اور کمزور مقامات کی نشاندہی کرکے انہیں مارک کرلیا ہے۔ ساتھ ہی اپنے ہتھیاروں کے نظام کو درست اور تیار کرلیا گیا ہے۔ تاکہ جارحیت کی صورت میں منہ توڑ اور حیران کن جواب دیا جاسکے۔‘‘