روس کا زیرِ آب ایٹمی ہتھیار "پوسائیڈون” کا کامیاب تجربہ

ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ روس نے زیرِ آب ایٹمی ہتھیار "پوسائیڈون” کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے، جسے انہوں نے دنیا کا ایک انتہائی طاقتور اسلحہ قرار دیا۔ پیوٹن کے بقول اس ہتھیار کی رفتار، گہرائی میں پہنچنے کی صلاحیت اور تباہ کن قوت ایسے عناصر ہیں جو اسے روایتی دفاعی نظاموں سے محفوظ بناتے ہیں۔

روسی معلومات کے مطابق پوسائیڈون ایک قسم کا ہائبرڈ ہتھیار ہے جو ایٹمی ٹارپیڈو اور خودکار زیرِ آب ڈرون جیسی خصوصیات رکھتا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس میں اس کے طول و عرض، وزن اور ممکنہ رینج کے اعداد و شمار بھی سامنے آئے ہیں — دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہتھیار طویل فاصلے تک سفر کرسکتا ہے اور اس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا وار ہیڈ نصب کیا جا سکتا ہے۔ پیوٹن نے بتایا کہ تجربے کے دوران اس کا نیوکلیئر پاور یونٹ کامیابی سے فعال کیا گیا اور اسے آبدوز سے لانچ کیا گیا۔

اس اعلان پر عالمی سطح پر تشویش پھیل گئی ہے اور دفاعی مبصرین نے کہا ہے کہ ایسے تجربات بین الاقوامی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا خطرہ پیدا کر سکتے ہیں۔ بعض عسکری تجزیہ کاروں نے پوسائیڈون کے دعویٰ کردہ تکنیکی پیرامیٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ صلاحیتیں حقیقت ہوں تو خطے اور عالمی سطح پر اس کے نتائج سنجیدہ ہوں گے، البتہ ان مبصرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آزاد، ماہرانہ اور شفاف تجزیے کے بغیر دعوؤں کی تصدیق مشکل ہے۔

روسی اعلان کے فوراً بعد امریکی ردِ عمل میں بھی بیانات سامنے آئے؛ وائٹس ہاؤس اور دفاعی حلقوں کی جانب سے روسی تجربے پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح کے اقدامات کے نتائج جاننے چاہئیں۔ اسی دوران امریکی صدر نے دفاعی حکام کو اس صورتِ حال کا جائزہ لینے کی ہدایات دیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جدید اسلحہ نظاموں کے تجربات بین الاقوامی عدم استحکام کو بڑھا سکتے ہیں اور اس لیے شفافیت، بین الاقوامی ضوابط اور باہمی اعتماد کی کوششیں لازم ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے ہتھیاروں کی ٹیکنیکل تفصیلات یا کسی قسم کے خطرناک عمل کی رہنمائی عوامی فورمز پر مہیا کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہوگا، اس لیے اس ضمن میں کسی بھی قسم کی ہدایات یا تکنیکی وضاحت فراہم نہیں کی جا سکتی۔

واضح رہے کہ روسی فوجی سرگرمیوں اور جدید ہتھیاروں کے تجربات کے سلسلے میں گزشتہ دنوں بھی متعدد اعلانات اور مشقیں سامنے آ چکی ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی مبصرین کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ عالمی برادری اس پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مستقبل میں ڈپلوماسی اور سلامتی سے متعلق ردِ عمل پر توجہ مرکوز رکھی جا رہی ہے۔