فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’ڈکی بھائی‘‘ کیس میں مجموعی رشوت وصولی 20 کروڑ روپے نکلی

عمران خان :
رسوائے زمانہ یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ’’ڈکی بھائی‘‘ کیس میں این سی سی آئی اے کے بدعنوان افسران کی جانب سے مجموعی طور پر 20 کروڑ روپے سے زائد رشوت وصولیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جب کہ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل وقارالدین برطرف، 7 افسران گرفتار، ڈپٹی ڈائریکٹر پر 15 کروڑ رشوت لینے کا الزام سامنے آنے کے بعد ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ ملک بھر تک پھیلا دیا۔ این سی سی آئی اے کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ ’’ڈکی اسکینڈل‘‘ کے بعد ادارے کا مورال بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اب ہر افسر کسی بھی کیس میں فیصلہ لینے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔ ان کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب ایف آئی اے کے افسران کے خلاف ایف آئی اے خود تحقیقات کر رہی ہے، جس سے اندرونی نظام پر دبائو بڑھ گیا ہے۔

ملنے والی معلومات کے مطابق ملک میں آن لائن جوئے، سٹے اور ڈیجیٹل فراڈز کے حوالے سے سامنے آنے والے ڈکی رشوت اسکینڈل نے نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ این سی سی آئی اے کے لاہور اور اسلام آباد کے افسران نے مختلف آن لائن جرائم پیشہ نیٹ ورکس، کال سینٹرز اور جوئے کے گروہوں سے بھاری رشوت وصول کی۔ مجموعی طور پر یہ رقم 20 کروڑ روپے سے زائد بتائی جا رہی ہے۔

ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اگرچہ بعض کرپٹ تفتیشی افسران کی وجہ سے مقدمہ قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ تمام ڈیجیٹل شواہد اور مالی ریکارڈ عدالت میں جمع ہو چکے ہیں، اس لیے ڈکی سمیت دیگر ملزمان کو مکمل ریلیف ملنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ تاہم اگر نئے افسران بدنیتی سے کوئی ریکارڈ چھپائیں یا تبدیل کریں تو کیس کی شفافیت متاثر ہو سکتی ہے۔ اس اسکینڈل کے سنگین ہونے پر وفاقی حکومت نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل وقارالدین سید کو عہدے سے ہٹا دیا۔ ان کی جگہ گریڈ اکیس کے سینیئر افسر سید خرم علی کو نیا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا ہے۔ حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق یہ فیصلہ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (ترمیمی) 2025 اور سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے تحت کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وقارالدین کی برطرفی دراصل ادارے کے اندر بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور ادارے کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا براہ راست نتیجہ ہے۔

تحقیقات کے مطابق، گرفتار افسران نے یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز، آن لائن ٹریڈنگ ایپس کے پروموٹرز اور دیگر مجرم گروہوں سے ماہانہ بنیادوں پر بھاری رقوم وصول کیں، تاکہ انہیں سرکاری کارروائی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ ان رقوم کی ادائیگی کبھی نقد، کبھی بینک اکائونٹس کے ذریعے اور کبھی بائنانس جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کی گئی۔ ذرائع کے مطابق، یہی رقم ان افسران کے خلاف براہِ راست شواہد بن گئی جس کے نتیجے میں ایف آئی اے نے سات افسران کو گرفتار کرلیا۔ ان میں ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان، ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز، اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض، علی رضا، زوار، یاسر گجر اور ایک دیگر افسر شامل ہیں۔

ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈکی کیس میں شامل کئی افسران کے خلاف شکایات ادارے کے اندر کافی عرصے سے موجود تھیں۔ ان کے مطابق ابتدائی تفتیشی افسر چوہدری سرفراز اور ان کی ٹیم پر یہ الزامات تھے کہ انہوں نے سعدالرحمن عرف ڈکی بھائی کے مقدمے میں ریلیف فراہم کرنے کے عوض بھاری رقم وصول کی۔ جب ان کے خلاف اندرونی انکوائری شروع ہوئی تو انہیں ہیڈکوارٹر اسلام آباد رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن انہوں نے چھ ماہ کی رخصت لے لی۔

ایف آئی اے کی عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق گرفتار افسران سے مجموعی طور پر چار کروڑ پچیس لاکھ اڑتالیس ہزار روپے نقد برآمد کیے گئے۔ اس میں چوہدری سرفراز سے ایک کروڑ پچیس لاکھ اڑتالیس ہزار، شعیب ریاض سے چھتیس لاکھ اڑتالیس ہزار، علی رضا سے ستر لاکھ، یاسر گجر سے انیس لاکھ اور زوار سے نو لاکھ روپے کی رقم شامل ہے۔ بقیہ رقم مختلف اکائونٹس میں منتقل کی گئی جس کی تفصیلات منجمد کر دی گئی ہیں۔ اس کیس میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب اسلام آباد سے لاپتا ہونے والے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر سے پندرہ کروڑ روپے رشوت وصول کی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان خود انکوائری سے بچنے کے لیے روپوش ہوئے تھے۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد انہیں لاہور میں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے مو?قف اختیار کیا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کو چودہ اکتوبر کو اپارٹمنٹ کی پارکنگ سے اغوا کیا گیا تھا اور انہیں کئی روز تک غائب رکھا گیا، بعد ازاں ایف آئی آر درج کر کے لاہور منتقل کر دیا گیا۔ عدالت نے اس معاملے کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عثمان کے پندرہ کروڑ کے مبینہ سودے کا تعلق بھی ڈکی بھائی کیس ہی سے تھا۔ یہ رقم مبینہ طور پر ملزم سعدالرحمن عرف ڈکی بھائی اور اس کے قریبی ساتھیوں سے ریلیف دلوانے کے عوض طلب کی گئی تھی۔ دوسری جانب عدالت میں ملزم ڈکی کے وکلا نے موقف اپنایا کہ ان کے موکل کو اب تک کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا بلکہ معاملے کی سوشل میڈیا پر غیر معمولی تشہیر نے تفتیش کو مزید متاثر کر دیا ہے۔ تاہم ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ مقدمے میں شامل تمام شواہد، ڈیجیٹل آلات، لیپ ٹاپ اور موبائل ڈیٹا سمیت فارنزک رپورٹس عدالت میں جمع کرائی جا چکی ہیں، جن میں واضح طور پر مالی لین دین اور رشوت کے ثبوت موجود ہیں۔

این سی سی آئی اے کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ ڈکی اسکینڈل کے بعد ادارے کا مورال بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اب ہر افسر کسی بھی کیس میں فیصلہ لینے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔ ان کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب ایف آئی اے کے ہی افسران کے خلاف ایف آئی اے خود تحقیقات کر رہی ہے، جس سے اندرونی نظام پر دبائو بڑھ گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیشی ٹیموں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تمام گرفتار افسران کے اثاثوں اور مالی لین دین کی مکمل چھان بین کریں۔ ایف آئی اے نے این سی سی آئی اے کے ان افسران کے آمدنی سے زائد اثاثوں کی تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تحقیقات کا دائرہ اب ملک بھر تک بڑھا دیا گیا ہے۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ مختلف شہروں میں سرگرم آن لائن جوئے، سٹے اور ڈیجیٹل فراڈ کے نیٹ ورک ان افسران کو باقاعدہ ماہانہ ادائیگیاں کرتے تھے تاکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو۔ اس حوالے سے متعدد شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور ایسے تمام افراد کی فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں جنہیں این سی سی آئی اے کے ملوث افسران نے رشوت کے عوض تحفظ فراہم کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق آئندہ مرحلے میں ان یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور آن لائن کاروباری شخصیات کو بطور گواہ عدالت میں پیش کیا جائے گا تاکہ بدعنوان افسران کے خلاف مزید مضبوط کیس بنایا جا سکے۔ ڈکی کیس نے نہ صرف چند افسران کی بدعنوانی کو بے نقاب کیا ہے بلکہ اس نے وفاقی تحقیقاتی نظام کی اندرونی کمزوریوں، اختیارات کے ناجائز استعمال اور ڈیجیٹل جرائم کی سرپرستی کے اس گہرے نیٹ ورک کو بھی عیاں کر دیا ہے جو برسوں سے خاموشی سے کام کر رہا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق یہ تفتیش ابھی ابتدا ہے، آنے والے ہفتوں میں مزید گرفتاریاں، ریکوریاں اور نئے انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے۔ حکومت نے اس واقعے کے بعد این سی سی آئی اے کے تمام شعبوں کی نگرانی سخت کرنے اور مالی شفافیت کے لیے ’’ڈیجیٹل انٹیگریٹی آڈٹ ٹیم‘‘ تشکیل دینے کی سفارش بھی کر دی ہے۔