فائل فوٹو

استنبول میں پاک افغان مذاکرات: ماحول ‘اچھا’، پاکستانی مطالبات ثالثوں کے حوالے

استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جمعرات کے روز شروع ہونے والے مذاکرات کے دوران ماحول ‘اچھا’ رہا اور بات چیت آج جمعہ کو بھی جاری رہی جس میں پاکستان  کی جانب سے ثالثوں کو تحریری مطالبات پیش کردیئے گئے ہیں۔

ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ پچھلی بات چیت کے برعکس استنبول میں جمعرات کو ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی اور طالبان وفود کے درمیان بات چیت گرم جوشی کے ساتھ جاری رہی، تاہم یہ واضح نہیں کہ پیش کردہ منصوبے میں کون سے مطالبات یا تجاویز شامل تھیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان سے ہونے والی سرحدی کشیدگی کے معاملے پر پاکستان نے شواہد پر مبنی مطالبات ترکی میں ثالثوں کے حوالے کر دیے ہیں۔ مذاکرات میں ثالثوں نے پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے۔

جمعے کو ترجمان دفتر خارجہ طاہر حسین اندرابی نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ مذاکرات ثالثوں کی موجودگی میں استنبول میں جاری ہیں۔ پاکستان کا مذاکراتی وفد استنبول میں موجود ہے جس میں ڈی جی آئی ایس آئی عاصم ملک جبکہ دفتر خارجہ کی نمائندگی کے لیے ایڈیشنل سیکرٹری علی اسد گیلانی استنبول مذاکراتی وفد میں شامل ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرانی کا کہنا تھا کہ استنبول میں پاکستانی مذاکراتی وفد نے ثالثوں کو معلومات شیئر کی ہیں، ثالث افغان طالبان کے ساتھ ہمارے مطالبات پر بات چیت کر رہے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کی جانب سے ثالثوں کو فراہم کردہ معلومات مصنفانہ اور فتنہ الخوارج سے متعلق ہیں، ہمارے مطالبات نہایت سادہ، واضح، مصنفانہ اور شواہد پر مبنی ہیں، مذاکرات کی تکمیل اور نتائج تک بیان نہیں دیا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد نے شواہد پر مبنی مطالبات ثالثوں کو پیش کیے جن کا واحد مقصد یہی ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کو ختم کیا جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک نہیں، سوشل میڈیا بالخصوص افغان اکاؤنٹس سے چلنے والی خبروں پر دھیان نہ دیں، یہ محض قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں اور جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے کی کوشش ہے۔

استنبول میں دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ثالثی کرنے والے ممالک، ترکی اور قطر، نے افغانستان اور پاکستان سے کہا کہ وہ اپنے مطالبات تحریری شکل میں ثالثوں کو پیش کریں، تاکہ ثالث دونوں فریقوں کے مطالبات کا موازنہ کر سکیں، ان نکات کی نشاندہی کر سکیں جن پر اتفاق ممکن ہے، اور ان نکات کی بھی جن پر اختلاف اور تنازع موجود ہے۔

ان ذرائع کے مطابق ثالثی کرنے والے ممالک نے پاکستان کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ اب ثالث ممالک پاکستانی مطالبات پر طالبان سے نقطہ وار بات کر رہے ہیں۔

مذاکرات کا تیسرا دور ترکی اور قطر کی ثالثی میں چل رہا ہے اور ذرائع کے مطابق یہ اجلاس دو روز تک جاری رہیں گے، تاہم ضرورت پڑنے پر ان میں مزید توسیع کی جا سکتی ہے۔ دونوں وفود گذشتہ روز استنبول پہنچے تھے۔

طالبان حکومتی وفد میں انٹیلی جنس چیف عبدالحق واثق، نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ نجیب، دوحہ میں طالبان حکومت کے سفیر سہیل شاہین، انس حقانی، عبدالقہار بلخی، ظہیر بلخی اور دیگر سرکاری اہلکار شامل ہیں۔

سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی کی وفد میں شمولیت اہم قرار دی جا رہی ہے۔

استنبول میں پاک افغان مذاکرات- انس حقانی شریک- پاکستان سے کون شامل

دونوں فریقین نے پچھلے دور کے اختتام کے بعد بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ پاکستانی حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ تیسرے دور میں دہشت گردی کی روک تھام اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کو یقینی بنانے کے وعدوں پر توجہ دی جائے گی۔

وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے 30 اکتوبر کو کہاtha کہ استنبول مذاکرات نے "افغانستان میں طالبان حکومت کو امن قائم کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کی بھاری ذمہ داری سونپی ہے۔” دوسری طرف طالبان حکومت کے ذریعے ایک انتباہ جاری ہوا کہ اگر تنازع جاری رہا تو "پاکستان پاکستان نہیں رہے گا”۔

اسی دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے طالبان حکومت کو خبردار کیا کہ "اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو واحد آپشن جنگ ہو گا۔” مذاکرات کے نتیجے اور پیش رفت پر دونوں طرف کی طرف داریوں اور خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ رابطوں اور ثالثی کی کوششوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

استنبول میں مذاکرات کے دوران جمعرات کو ماحول خوشگوار رہنے کی اطلاعات کے باوجود چمن بارڈر پر فائرنگ کا تبادلہ دیکھنے میں آیا ہے۔