برطانیہ میں سوشل میڈیا پر پھیلنے والی گمراہ کن معلومات کے باعث بڑی تعداد میں مرد نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کی کلینکس کا رخ کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ اپنے تعلق کو بہتر بنانے کیلئے ٹیسٹوسٹیرون تھراپی حاصل کرسکیں — حالانکہ انہیں اس کی طبی ضرورت نہیں ہوتی۔
برطانوی میڈیا کے مطابق یہ رجحان پہلے سے دباؤ کا شکار اسپتالوں پر مزید بوجھ ڈال رہا ہے۔
ٹیسٹوسٹیرون ریپلیسمنٹ تھراپی (TRT) صرف ان مریضوں کے لیے تجویز کی جاتی ہے جن میں خون کے بار بار ٹیسٹوں کے ذریعے ہارمون کی کمی ثابت ہو جائے۔ لیکن ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر گردش کرنے والی ویڈیوز نے اس علاج کو ’’لائف اسٹائل سپلیمنٹ‘‘ کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے — جہاں اسے کم توانائی، تھکن، کم توجہ یا جنسی کمزوری جیسے مسائل کا حل بتایا جا رہا ہے۔
امپیریل کالج لندن سے وابستہ پروفیسر چنا جےاسینا، جو سوسائٹی فار اینڈوکرائنولوجی اینڈرولوجی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں، نے بتایا کہ اسپتالوں میں ایسے مردوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو نجی کلینکس سے کیے گئے ٹیسٹوں کے بعد غلط طور پر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ انہیں ٹیسٹوسٹیرون کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، “ہم نے ملک بھر کے 300 اینڈوکرائنولوجسٹس سے پوچھا — تقریباً سبھی ہر ہفتے ایسے مریض دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ لوگ ہماری کلینکس بھر رہے ہیں۔ پہلے ہم ذیابیطس یا غدودی مسائل والے مریض دیکھتے تھے، مگر اب یہ مسئلہ این ایچ ایس کی نگہداشت پر اثر ڈال رہا ہے۔”
برطانیہ میں نسخے پر ملنے والی دواؤں کی تشہیر غیر قانونی ہے، مگر گارڈین کی تحقیق کے مطابق متعدد ٹک ٹاک انفلوئنسرز نجی میڈیکل کلینکس کے ساتھ اشتراک کر کے خون کے ٹیسٹوں کو ٹیسٹوسٹیرون تھراپی تک پہنچنے کا ذریعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ انفلوئنسرز رعایتی کوڈز اور گفٹ آفرز کے ذریعے مردوں کو ٹیسٹ کروانے پر آمادہ کرتے ہیں۔
ایک ویڈیو میں ایک شخص ورزش کرتے ہوئے کہتا ہے: “اپنا ٹیسٹوسٹیرون چیک کرواؤ… مجھ سے £20 کی رعایت حاصل کرو۔” ایک اور ویڈیو میں مفت خون کا ٹیسٹ بطور انعام پیش کیا گیا ہے تاکہ مرد “اپنی کارکردگی پر قابو پائیں۔”
گارڈین نے ان ویڈیوز کو ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈز اتھارٹی کے نوٹس میں لایا، جس نے ضابطے کی خلاف ورزیوں کے شبہے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غیرضروری طور پر ٹیسٹوسٹیرون لینا جسم کے قدرتی ہارمون نظام کو متاثر کرتا ہے، بانجھ پن کا باعث بن سکتا ہے اور خون کے لوتھڑے، دل کے امراض اور ذہنی دباؤ جیسے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
پروفیسر جےاسینا کے مطابق، “طبی ہدایات واضح ہیں کہ کن مریضوں کو ٹیسٹوسٹیرون دیا جانا چاہیے۔ محض کم حوصلگی یا پٹھوں کی کمی اس کا جواز نہیں بنتے۔” انہوں نے مزید کہا کہ بعض کلینکس ایسے مردوں کو بھی ٹیسٹوسٹیرون دینا شروع کر چکے ہیں جن کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح بالکل معمول کے مطابق ہے، جو کہ خطرناک عمل ہے۔
ایک وقت تھا جب TRT صرف چند مخصوص مریضوں کے لیے مخصوص علاج سمجھا جاتا تھا، مگر اب یہ سوشل میڈیا پر ایک ’’پرفارمنس آپٹیمائزیشن‘‘ یا طرزِ زندگی کا فیشن بنتا جا رہا ہے — جس کے باعث ماہرین صحت شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos