بھارتی جنگجو میڈیا نے پہلگام فالس فلیگ کے فوری بعد جھوٹی خبریں پھیلائیں ، فائل فوٹو
بھارتی جنگجو میڈیا نے پہلگام فالس فلیگ کے فوری بعد جھوٹی خبریں پھیلائیں ، فائل فوٹو

دہلی ریڈ فورٹ دھماکے کے بعد بھارت جھوٹی کہانی گھڑنے میں مصروف

دہلی میں پیر کی شام ہونے والے ہلاکت خیز کار دھماکے کے بعد جیسے جیسے تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، عینی شاہدین کے بیانات اور مودی حکومت کے سرکاری مؤقف میں سنگین تضادات نے واقعے کو متنازع بنا دیا ہے۔ بظاہر بھارتی حکومت ایک اور جھوٹی کہانی گھڑنے میں مصروف ہے۔ جس کا مقصد پاکستان پر الزام تراشی ہو سکتا ہے

بھارت پہلے بھی اس طرح کی کہانیوں یا فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے پاکستان پر الزامات عائد کرچکا ہے۔

دہلی کے ریڈ فورٹ میٹرو اسٹیشن کے قریب 10 نومبر 2025 کو ایک کار دھماکہ ہوا جس میں 8 افراد ہلاک ہوئے۔

گاڑی پر متضاد دعوے

ابتدائی اطلاعات کے مطابق حادثے میں استعمال ہونے والی گاڑی کے حوالے سے مختلف دعوے سامنے آئے۔

ایک مقامی عینی شاہد، جو لاشیں نکالنے میں مصروف تھا، نے بتایا کہ دھماکہ ایک سوزوکی ماروتی گاڑی میں ہوا۔ دوسری جانب حکومت اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا کہ دھماکہ ہنڈائی i20 میں ہوا۔

عینی شاہد کے بیان کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر وائرل ہو چکی ہے، جبکہ ابتدائی زمینی رپورٹس بھی اسی دعوے کی تائید کرتی تھیں۔
تاہم بعد میں سرکاری بیانیہ تبدیل ہوا اور واقعے کو “ہنڈائی i20 دھماکہ” قرار دے کر تحقیقات نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) اور نیشنل سکیورٹی گارڈ (NSG) کے سپرد کردی گئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس متضاد دعوے سے شبہ پیدا ہوا ہے کہ بھارت شواہد کے ساتھ ٹیمپرنگ کر رہا ہے۔

گاڑی کا مالک کون تھا؟

مقامی رپورٹس کے مطابق گاڑی ندیم نامی شخص کے نام پر رجسٹرڈ تھی جو فریدآباد، ہریانہ کا رہائشی ہے۔ بعد میں کچھ رپورٹس میں سلمان نامی شخص کا ذکر آیا جس نے مبینہ طور پر گاڑی فروخت کی تھی، تاہم گاڑی کی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ (RC اب بھی اس کے نام تھی۔
اسی دوران حکومت نواز میڈیا نے اچانک یہ مؤقف اختیار کیا کہ گاڑی بالآخر طارق نامی کشمیری شخص کے قبضے میں تھی، جس کے بعد واقعے کو پلوامہ 2019 سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔برطانوی خبر رسان ادارے کے مطابق سلمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ “ملکیت کی کہانی” غیر واضح اور مصنوعی محسوس ہوتی ہے، جو ایک ہی دن میں ہریانہ سے کشمیر تک پہنچ گئی، مگر اس کی کوئی عدالتی یا فرانزک بنیاد پیش نہیں کی گئی۔

دھماکے کی نوعیت: دہشت گردی یا حادثہ؟

ابتدائی طور پر جائے وقوعہ پر موجود ریسکیو اہلکاروں نے شبہ ظاہر کیا کہ دھماکہ سی این جی سلنڈر کے پھٹنے سے ہوا، نہ کہ کسی بم سے۔ اس کے باوجود مودی میڈیا نے فوری طور پر اسے “دہشت گرد حملہ” قرار دے دیا، جب کہ فرانزک رپورٹس تاحال منظرِ عام پر نہیں آئیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ دہشت گردی ہوتی تو حملہ آور فرار ہو جاتے، مگر یہاں گاڑی میں سوار تمام افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے، جو خودکش حملے سے زیادہ جعلی جھڑپ یا فالس فلیگ جیسا منظر پیش کرتا ہے۔

خدشات اور ممکنہ مقاصد

سیاسی مبصرین کے مطابق اس واقعے کے ذریعے مودی حکومت اسلاموفوبیا کو بڑھا سکتی ہے، جموں و کشمیر کے شہریوں کو نشانہ بنا سکتی ہے،عوامی توجہ انتخابی مہم سے متعلق مسائل سے ہٹا سکتی ہے، اور پاکستان کو ایک بار پھر موردِ الزام ٹھہرا سکتی ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔