جعلی ایڈمرل، فائل فوٹو

برطانوی میڈیاپر ’ جعلی ریئر ایڈمرل‘ کے چرچے۔ تحقیقات شروع

اس وقت برطانوی میڈیاپر ایک جعلی ایڈمرل کے چرچے ہیں۔64سالہ جوناتھن ڈیوڈ کارلی نے اتوار کو ایک جنگی یادگار پر منعقدہ تقریب میں پوری سج دھج کے ساتھ شرکت کی۔وہ بحریہ کے لباس میں تھا اور 12تمغوں کی ایک طویل قطار اس کے سینے پر جگمگارہی تھی۔

برطانیہ کے اخبارات اور نشریاتی اداروں نے اس واقعے کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ان میں بتایاگیا کہ ریئر ایڈمرل (ٹوسٹار جنرل)کی وردی میں ملبوس اس شخص کا لباس غیرموزوں اور بے ڈھنگاتھا۔اسے دیکھ کر وہاں موجود بحری افسران کے چہروں پر ناگواری کے تاثرات ابھرے ۔

قابل ذکربات یہ ہے کہ مذکورہ ’ ریئر ایڈمرل‘ پہلی بار منظر عام پرنہیں آیا بلکہ اس کی کم ازکم دو ایسی تقریبات میں شرکت کے تصویری شواہد موجودہیں جو برطانوی اخبارات نے حالیہ واقعے کی رپورٹ کے ساتھ شائع بھی کیے ۔

وہ قبل ازیں 2018اور 2019 میں بھی عوامی مقامات پر اسی نوعیت کے عسکری اجتماعات میں شریک ہوچکاہے ۔

حالیہ واقعہ شمالی ویلز میں کانوی کائونٹی کے ساحلی سیاحتی مقام لنڈوڈنو ( Llandudno) پر پیش آیا۔جہاں عالمی جنگوں سمیت عراق اورکوریاکی جنگوں کا ایک وارمیموریل قائم ہے۔یہاں330 برطانوی فوجیوں کی قبریں ہیں۔

نومبر کے دوسرے اتوار کو ہرسال پورے برطانیہ میں ایک یادگاری تقریب منعقد ہوتی ہے جس کے دوران پہلی عالمی جنگ میں کا م آنے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتاہے۔

لنڈوڈنو میں بھی تقریب کا اہتمام کیا گیاتھا ۔اس موقع پر توپوں کی سلای پیش کی گئی، 2 منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور مقامی چرچ میں دعائیہ سروس کا انعقادہوا۔ شہرمیں ایک فوجی پریڈ بھی تقریبات کا حصہ تھی۔

اس دوران جنگی یادگار پر جو تقریب رکھی گئی تھی اس میں ایک ’ریئرایڈمرل‘بھی آئے۔ان کا لباس قابل ذکر تھا۔ کٹ ا وے (cutaway)کالر کے ساتھ سفید قمیض جس کی رائل نیوی کے ضوابط میں اجازت نہیں۔بڑی آستینیں انگلیوں تک پہنچ رہی تھیں۔

کارلی نے جنگی یادگارپر تمام رسوم اداکرتے ہوئے فوجی اندازمیں کھڑے ہوکر خراج عقیدت پیش کیا،پورے احترام کے ساتھ پھولوں کی چادر چڑھائی اورسلامی دی۔

جب ان سے پوچھاگیاتو ان کا دعویٰ تھاکہ وہ کلوڈ (Clwyd) کائونٹی کے لارڈلیفٹیننٹ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

لارڈ لیفٹیننٹ اور تقریب کی منتظم ٹائون کونسل دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نہیں جانتے یہ شخص کون ہے۔کلوڈ کے لارڈ لیفٹیننٹ کے ترجمان کا کہناہے کہ لارڈ لیفٹیننٹ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ کسی کو اپنی طرف سے تقریب میں جانے کے لیے کہے گا۔کونسل نے اس شخص کی تصویر بھیجی لیکن یہاں کسی نے اسے پہچانا نہیں۔

ٹاؤن کونسل نے کہا کہ مسٹر کارلی اس کے مہمانوں کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔ لارڈ لیفٹیننٹ ہیری فیدرسن ہاگ نے کہا کہ میں نے اس شخص کو اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

’ریئرایڈمرل‘ کے سینے پر تمغوں کا بھی غیر متوقع امتزاج تھا جس نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ۔ان میں ڈسٹنگویشڈ سروس آرڈر (DSO)، ایک MBE اور گلف وار میڈل شامل تھے۔اس نے ملکہ کا رضاکارانہ ریزرو میڈل (QVRM )بھی پہن رکھا تھا، جو صرف ریزروفوجیوں کے لیے ہے اور اسے کبھی کسی ایسے افسر نے حاصل نہیں کیا جس کے پاس ڈی ایس او بھی ہے۔

QVRM کبھی کسی ایڈمرل کو نہیں دیا گیا اور ریزرو میں کوئی ایڈمرل نہیں ۔

’ ریئر ایڈمرل‘ نے ایسے تمغے پہن رکھے تھے جو ممکنہ طور پر ایک ساتھ حاصل نہیں کیے جا سکتے۔نیوی کے ایک ریٹائرڈ افسر کا کہناتھا میں نے کبھی کسی کے سینے پر اتنا سونا نہیں دیکھا۔

ملٹری لسٹنگ کے سرکاری ریکارڈ میں، بزعم خود ’ ریئر ایڈمرل ‘مسٹر کارلی کا نام صرف ایک بارچیلٹنہم کالج کی مشترکہ کیڈٹ فورس میں سیکنڈلیفٹیننٹ (پروبیشن پر) کے طور پر درج ہے، جہاں وہ تاریخ کے استاد تھے۔

تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ‘’رئیر ایڈمرل‘ 2018 میں کیرنارفون کے یادگاری دن بھی وی آئی پیزمیں شامل تھے۔ 2019 میں بھی ان کی باوردی تصویر بھی موجود ہے۔

کیرنارفون تقریب کی تصاویر میں ایک شخص کو ریئر ایڈمرل کا لباس پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بحریہ کے ایک ذریعے نے کہا کہ یہ 100 فی صد وہی آدمی ہے – اس نے ایک ہی میڈلز کا سیٹ پہن رکھا تھا، سوائے ڈی ایس اوکے۔

ذریعے کا مزید کہناتھاکہ رائل نیوی نسبتاً چھوٹی کمیونٹی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ریئر ایڈمرلز کون ہیں۔

رائل نیوی میں اس وقت صرف 19 ریئر ایڈمرلز درج ہیں۔

معاملے کی اطلاع عسکری اداروںکو دی گئی ہے لیکن عام طور پر اس قسم کے معاملات میں تفتیش نہیں کی جاتی۔

2006 میں ترمیم شدہ ضابطے کے تحت، غیر حاصل شدہ تمغے پہننا غیر قانونی نہیں،جب تک اس میں فوجی اداروں کے لیے رقم اکٹھا کرنے جیسی دھوکہ دہی شامل نہ ہو۔رائل نیوی نے تصدیق کی کہ وہ اس نوعیت کے معاملات میں تحقیقات نہیں کرتی جب تک غیر قانونی سرگرمی کا شبہ نہ ہو، اور وہ لنڈوڈنو واقعے کی جانچ نہیں کرے گی۔

بحریہ کے ذرائع نے یہ بھی کہا کہ ایسا عمل توہین آمیزہےاور یونیفارمز ایکٹ 1894 کے تحت ایک مجرمانہ فعل سمجھا جا سکتا ہےجو کسی بھی ایسے شخص کو فوجی وردی پہننے سے منع کرتا ہے جس نے مسلح افواج میں خدمات انجام نہیں دی ہیں۔

برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ وہ اسے بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے، بحریہ کے افسر کی نقالی کرنا ایک جرم سمجھا جا سکتا ہے۔وزارت دفاع کے ترجمان کا کہناہے کہ بحری افسر کی نقالی کرنا سروس سے منسلک ہر کسی کی توہین ہے ۔

ٹائون کونسل کی شہری ذیلی کمیٹی کے سربراہ گریگ رابنزنے بی بی سی کو بتایاکہ اس شخص نے تقریب میں خلل نہیں ڈالا، لیکن ہم یہ جاننے کے خواہشمند ہیں کہ وہ کون تھا، اور اس کی تحقیقات پر وزارت دفاع کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

مسٹر کارلی سمندر کنارے واقع شہر ہارلیچ کے باشندے ہیں۔اس علاقے میں لوگوں نے میڈیاکوبتایاہے کہ وہ پڑوسیوں کے سامنے اپنی فوجی خدمات کی داستانیں سناتے رہتے ہیں۔
برطانوی اخبارات نے رپورٹ کیا ہے کہ مسٹر کارلی نے رابطہ کرنے پر جواب نہیںدیا۔انہوںنے دروازے پر آنے سے انکار کر دیا۔

لنڈوڈنو سے تعلق رکھنے والے چیف پیٹی آفیسر ٹیری سٹیورٹ نے کہا کہ مجھے اس میں شک نہیں کہ وہ اگلے سال پھرآئے گا۔

برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ وہ اسے بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے، بحریہ کے افسر کی نقالی کرنا ایک جرم سمجھا جا سکتا ہے۔وزارت دفاع کے ترجمان کا کہناہے کہ بحری افسر کی نقالی کرنا سروس سے منسلک ہر کسی کی توہین ہے ۔

، ٹائون کونسل کی شہری ذیلی کمیٹی کے سربراہ گریگ رابنزنے بی بی سی کو بتایاکہ اس شخص نے تقریب میں خلل نہیں ڈالا، لیکن ہم یہ جاننے کے خواہشمند ہیں کہ وہ کون تھا، اور اس کی تحقیقات پر وزارت دفاع کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔