افغان طالبان سربراہ ملا ہبت اللہ پر چند روز قبل ہونےو الے مبینہ قاتلانہ حملے کی تفصیلات سامنےآگئی ہیں۔ شروع میں حملہ آور کے مارے جانے کی خبریں آئی تھیں تاہم اب بتایا جا رہا ہے کہ اس سے تفتیش کی جا رہی ہے اور اس کی شناخت کا تعین بھی کر لیا گیا ہے۔
ملا ہبت اللہ پر یہ مبینہ قاتلانہ حملہ 10 نومبر کو ہوا تھا لیکن طالبان ذرائع اس کی تردید کرتے ہیں۔ افغانستان کے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے درجنوں پوسٹیں موجود ہیں۔
اطلاعات کےمطابق 10 نومبر 2025 کو طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ پر قندھار کے مرکزی جہادی مدرسہ میں قتل کی ناکام کوشش ہوئی۔ یہ مدرسہ صوبائی جہادی نیٹ ورکس کا مرکزی انتظامی مرکز ہے جہاں ہبت اللہ کی حفاظت انتہائی سخت سمجھی جاتی ہے۔
شروع کی خبروں میں کہا گیاکہ حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کردیا گیا۔ بعض افغان سوشل میڈیا صارفین نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کی تاہم افغانستان کے اندر سے ہی کہا جا رہا تھا کہ حملہ آور کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے نہیں تھا۔
تازہ اطلاعات کے مطابق حملہ آور کی شناخت لیفٹیننٹ حفیظ صدیق اللہ کے طور پر ہوئی، جو طالبان وزارت دفاع کے عزم 215 آرمی کور کا حصہ تھا۔ 2024 میں اسے قندھار کے مرکزی جہادی مدرسہ منتقل کیا گیا، جہاں اسے ہبت اللہ تک رسائی حاصل تھی۔ حملے کے دوران صدیق اللہ نے ہبت اللہ کے دائیں ہاتھ پر چھری سے حملہ کیا، جس سے صرف سطحی زخم ہوا، تاہم حفاظتی یونٹ نے اسے فوری طور پر زخمی کر کے حراست میں لے لیا اور وہ تفیش کا سامنا کر رہا ہے۔
مبینہ حملہ آور ہلمند صوبے کے موسیٰ قلعہ ضلع کے رہائشی مولوی عبد النبی کا بیٹا ہے۔
اس مبینہ حملے کے بعد طالبان کے اندر دھڑے بازی کی خبروں نے زور پکڑا تاہم افغان طالبان ذرائع اس حملے کی سرے سے تردید کرتے ہیں۔افغان سوشل میڈیا پر یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں حملے کی خبر لیک کرنے والے تین افغان عہدیداروں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
سی آئی اے کی سابق تجزیہ کار سارہ ایڈمز نے حملے کے حوالے سے تفصیلات بیان کی ہیں اور مبینہ حملہ آور کے سرکاری کارڈ کی تصویر بھی شیئر کی ہے۔
Internal Breach: The Assassination Attempt on Haibatullah Akhundzada
On November 10, 2025, at 1713 local time, an attempted assassination targeted Haibatullah Akhundzada, leader of the Islamic Emirate of Afghanistan, at the Kandahar Central Jihadi Madrasa, the central… pic.twitter.com/nWYvsbB24L
— Sarah Adams (@TPASarah) November 19, 2025
ملا ہبت اللہ کی حفاظتی تفصیلات

افغان طالبان کے سربراہ سخت سیکورٹی میں رہتے ہیں اور عام طو رپر منظر عام پر آنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے تحفظ پر ہزاروں اہلکار مامور ہیں۔اس کی کچھ تفصیل ذیل ہے۔
عمری لشکر: تقریباً 60,000 مسلح جنگجو، خاندان اور کلیدی کمانڈرز کی حفاظت کرتے ہیں۔
فوری حفاظتی یونٹ: تقریباً 1,000 جنگجو، ذاتی حفاظت اور مشیروں کی نگرانی، قیادت: ملا عبد اللہ جان اخوندزادہ۔
علاقائی حفاظتی یونٹ: جنوبی صوبوں میں نگرانی، قیادت: ملا محمد ولی شاہ آغا۔
آپریشنل اور انٹیلی جنس یونٹ: سرحدیں، ایئرپورٹس اور طالبان اداروں میں رسائی، قیادت: ملا عبد السلام ایوب آغا۔
ماضی کے حملے
اگر اس حملے کی تصدیق ہوتی ہے تو ملا ہبت اللہ پر یہ چوتھا حملہ ہوگا جب کہ 2021 میں طالبان کی جانب سے کابل پرکنٹرول کے بعد یہ سب سنگین خطرہ ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ملا ہبت اللہ پر تین حملے ہوچکے ہیں جن میں سے دو اس وقت ہوئے جب وہ پاکستان میں تھے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق کتوبر 2012 میں کوئٹہ میں ایک لیکچر کے دوران اخوندزادہ پر ایک شخص نے قریب سے پستول تان دی، لیکن پستول جام ہوگیا۔ طالبان نے فوراً حملہ آور کو قابو میں کر لیا۔ طالبان نے اس کوشش کا الزام افغان خفیہ ایجنسی (این ڈی ایس) پر لگایا۔
مغربی میڈیا کے مطابق اگست 2019میں کوئٹہ کے خیر المدارس مسجد میں نماز جمعہ کے دوران زوردار دھماکہ ہوا، جس میں اخوندزادہ کے بھائی حافظ احمد اللہ اور والد جاں بحق ہوئے۔ یہ دھماکہ نماز کے امام کے کرسی کے نیچے نصب شدہ ٹائمڈ ڈیوائس سے کیا گیا تھا۔ بعد میں مزید رشتہ داروں کی ہلاکتیں بھی تصدیق ہوئیں۔ ہائی کونسل آف افغانستان اسلامک امیرایت، طالبان کی ایک الگ دھڑے نے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ اصل ہدف اخوندزادہ تھا۔
2024 میں 18 مئی کو افغانستان فریڈم فرنٹ (AFF) نے کابل میں شاہ دو شمشیرہ مسجد کے قریب اخوندزادہ کے خلاف قاتلانہ حملے کا دعویٰ کیا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos