پاپائے روم کی استنبول کی مسجد میں عبادت؟ حقیقت کیا ہے

 

استنبول(اُمت نیوز) پاپائے روم نے اپنے انتخاب کے بعد پہلی بار ترکی کا دورہ کرتے ہوئے تاریخی نیلی مسجد کا مشاہدہ کیا، جہاں انہوں نے احترام کے طور پر اپنے جوتے اتارے، تاہم وہ نماز ادا کرتے نظر نہیں آئے۔ ان کے دورے کے بعد جاری ہونے والے ویٹیکن کے بیان نے صورتحال کو مزید مبہم بنا دیا۔

ہفتے کے روزپاپائے روم مقامی مسلم رہنماؤں کے ہمراہ، 17ویں صدی میں تعمیر ہونے والی اس معروف عثمانی مسجد میں داخل ہوئے، جو اپنی فیروزی ٹائلوں اور شاندار گنبدوں کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ پوپ کو سفید موزوں میں مسجد کے اندر چلتے دیکھا گیا — جس کا حوالہ انہوں نے قبل ازیں ہلکے پھلکے انداز میں دیتے ہوئے کہا تھا کہ "میں ہمیشہ سفید جرابیں پہنتا ہوں”۔

مسجد کے موزن Aşgın Tunca کے مطابق پوپ کو نماز کی دعوت بھی دی گئی تھی۔ ٹونکا نے بتایا کہ انہوں نے پوپ سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو عبادت کر سکتے ہیں، لیکن پوپ نے جواب دیا: “نہیں، میں صرف اردگرد دیکھنے آیا ہوں۔”

ویٹیکن کا مؤقف پل بھر میں تبدیل

دورے کے فوراً بعد ویٹیکن پریس آفس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پوپ نے مسجد میں نماز کا ایک مختصر لمحہ گزارا—حالانکہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ بعد ازاں ویٹیکن نے اسے غلطی قرار دیتے ہوئے وضاحت کی کہ بیان دراصل دورے سے پہلے تیار کیے گئے بک لیٹ سے غلطی سے میڈیا کو بھیج دیا گیا تھا۔

ماضی کے پوپ بھی نیلی مسجد میں نماز کے بارے میں بحث کا موضوع رہے

نیلی مسجد کا دورہ کرنے والےپاپائے روم تیسرے پوپ ہیں:

  • 2014 میں پوپ فرانسس نے مسجد میں دو منٹ خاموش دعا میں گزارے تھے۔
  • 2006 میں پوپ بینیڈکٹ XVI نے "خاموش مراقبے” کا لمحہ اختیار کیا تھا، جسے بعض مبصرین نے ایک پوپ کی جانب سے مسلم عبادت گاہ میں پہلی باقاعدہ دعا قرار دیا تھا۔
  • 2001 میں پوپ جان پال II نے شام کی ایک مسجد کا دورہ کرکے یہ روایت قائم کی تھی۔

ویٹیکن نے لیو کے حالیہ دورے کے بعد دوبارہ وضاحت کی کہ پوپ نے مسجد کو “خاموشی، غور و فکر اور وہاں موجود نمازیوں کے ایمان کے احترام” کے ساتھ دیکھا۔

بین المذاہب تعاون کی کوششیں

پوپ لیو XIV نے اس دورے سے چند روز قبل بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق چرچ کے تاریخی اعلامیے کی 60ویں سالگرہ منائی تھی، جس میں مختلف مذاہب کے سینکڑوں رہنماؤں نے ویٹیکن میں شرکت کی۔

یہ دورہ عالمی مذاہب کے درمیان مکالمے اور باہمی احترام کی روایت کو ایک بار پھر مضبوط بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔