2009 کی بغاوت اور قتل عام میں شیخ حسینہ کے ملوث ہونے کا انکشاف

 

بنگلہ دیش میں 16 سال قبل ہونے والی پُرتشدد بغاوت کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ درجنوں سینئر فوجی افسروں کے قتل سمیت قتل عام کا حکم سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے دیا تھا۔

2009 میں ڈھاکا سے شروع ہونے والی اور ملک بھر میں پھیل جانے والی دو روزہ بغاوت کے دوران بارڈر گارڈز کے اہلکاروں نے 74 افراد کو ہلاک کیا، جن میں کئی اعلیٰ فوجی افسران بھی شامل تھے۔ یہ واقعہ شیخ حسینہ کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے چند ہفتوں بعد پیش آیا، جس سے ان کی حکومت شدید عدم استحکام کا شکار ہوئی۔

پچھلے برس طلبا کی قیادت میں ہونے والی تحریک کے بعد حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا، اور محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے نیا کمیشن تشکیل دیا۔ اس وقت شیخ حسینہ بھارت میں مقیم ہیں اور بنگلہ دیش واپسی کے عدالتی احکامات کو نظر انداز کر رہی ہیں۔

کمیشن کے سربراہ اے ایل ایم فضل الرحمان نے بتایا کہ شیخ حسینہ کی قیادت میں عوامی لیگ کی حکومت براہِ راست اس بغاوت میں ملوث تھی۔ سابق رکنِ پارلیمنٹ فضل نور تپوش مرکزی رابطہ کار کے طور پر کام کر رہے تھے اور حسینہ کے اشارے پر قتل عام کا منصوبہ آگے بڑھایا گیا۔

دفتر اطلاعات کے مطابق تحقیقات میں ایک غیر ملکی طاقت کے ملوث ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ فضل الرحمان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت نے اس قتل عام کے بعد ملک کو غیر مستحکم کرنے اور بنگلہ دیشی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ بھارت کی جانب سے ان الزامات پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

عبوری وزیرِ اعظم محمد یونس نے کمیشن کی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ قوم کئی برسوں سے 2009 کے قتل عام کی حقیقی وجوہات سے بے خبر رہی، اور کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے اب حقیقت سامنے آگئی ہے۔

پہلی تحقیقات میں یہ نتیجہ نکالا گیا تھا کہ بغاوت کے پیچھے اہلکاروں کی طویل عرصے سے جمع شدہ ناراضگی، کم تنخواہیں اور نامناسب رویے شامل تھے، تاہم اس تحقیق میں سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی براہِ راست مداخلت اور سیاسی سازش کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔