برطانیہ اور بحرین کا 6 روزہ دورہ کرنے کے بعد وزیراعظم گذشتہ روز لندن سے وطن واپس پہنچ گئے۔وزیر اعظم کے خصوصی طیارے نے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔ شہباز شریف وفد کے ہمراہ 26 نومبر کو اسلام اباد سے خصوصی دورے پر بحرین پہنچے تھے، جس کے اگلے روز وہ برطانیہ گئے۔وزیر اعظم لندن میں 4 روزہ قیام کے بعد پیر کی صبح لندن کے لیوٹن ایئرپورٹ سے پاکستان کیلئے روانہ ہوئے ۔یہ ان کا نجی دورہ تھا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے برطانیہ میں طبی معائنہ کرایا۔شہباز شریف خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور کے اولڈ ایئرپورٹ پہنچے اور پھر وہاں سے اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن چلے گئے۔
اس خبر کی موجودہ صورت حال میں خاصی اہمیت ہے۔ چیف آف ڈیفنس فورسزکے عہدے پر آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں ہوا۔ اس تاخیر نے ملک بھرمیں قیاس آرائیوں کاطوفان برپاکیا ہواہے۔
27نومبر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس ریٹائرہوگئے اور اس کے ساتھ ہی وہ عہد ہ بھی ختم ہوگیا جیساکہ حالیہ 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کہتاہے۔چیئرمین جوائنٹ چیفس کی جگہ چیف آف ڈیفنس فورسزنے لینی ہے،تاہم اس کا نوٹیفکیشن جاری ہوناباقی ہے۔
ذرائع ابلاغ پر اس بارے میں کہا جارہاہے کہ 29 نومبر کی اہم ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد حکومت کی جانب سے ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیے جانے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔29 نومبر کو اس لیے بھی اہم سمجھا جا رہا تھا کہ یہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ابتدائی تین سالہ مدت ملازمت کے خاتمے کی تاریخ تھی۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر نیا نوٹیفکیشن جاری نہ ہوا تو مدت ملازمت تکنیکی طور پر ختم سمجھی جا سکتی ہے، لیکن 2024 کی پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد سروسز چیفس کی مدت ملازمت 5 سال کر دی گئی ہے، ترمیم میں شامل ’ڈیمنگ کلاز‘ کے مطابق یہ قانون ہمیشہ سے ایکٹ کا حصہ تصور ہوگا، اس لیے قانونی ماہرین کے مطابق آرمی چیف کی مدت بڑھانے کے لیے کسی نئے نوٹیفکیشن کی ضرورت ہی نہیں رہی، یوں ان کے نزدیک 29 نومبر کوئی قانونی حد نہیں تھی۔
آئینی وپارلیمانی اُمور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا ماننا ہے کہ 26ویں ترمیم کے تحت آرمی چیف کی مدتِ ملازمت پہلے ہی 2027 تک بڑھا دی گئی ہے اور اس کے لیے کسی نئے نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں ہے۔انھوں نے ایکس پر لکھا کہ 27ویں ترمیم کے مطابق ’سی ڈی ایف کا عہدہ آرمی چیف کے ساتھ ہی بیک وقت چلے گا، اور دونوں عہدوں کی مدت 2030 تک ہو گی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اس صورتحال میں آئینی خلا کہاں ہے؟‘ایک صارف کی ٹویٹ کے جواب میں احمد بلال محبوب نے لکھا کہ ’نوٹیفکیشن اس لیے ضروری ہے تاکہ ان کی مدتِ ملازمت کی تاریخ طے کی جا سکے لیکن اس کے بغیر بھی کوئی آئینی خلا موجود نہیں۔
متعدد سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ حکومت کو فیلڈ مارشل عاصم منیر کو سی ڈی ایف کا منصب دینے کے لیے ایک نیا اور باضابطہ عوامی نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا۔ اس وقت ایک اہم سوال یہ زیر غور ہے کہ آرمی چیف کی 5 سالہ مدت ملازمت کا آغاز کس تاریخ سے شمار کیا جائے، نومبر 2022 سے جب سیدعاصم منیر نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا، یا پھر نومبر 2025 سے، جیسا کہ نئی قانون سازی کے بعد عمومی تاثر پایا جاتا رہا ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہہ چکے ہیں کہ چیف آف دی ڈیفنس فورسز کے عہدے کا باضابطہ نوٹی فکیشن جلد جاری ہوجائے گا،پریشانی کی بات نہیں۔نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ سرکاری پراسس کا حصہ ہے، وزیراعظم ملک میں نہیں ہیں(تھے)، وزیر اعظم آجائیں گے تو سب کچھ ہوجانا چاہیے۔وہ (آرمی چیف) عہدے پر موجود ہیں۔ یہ سرکاری پراسیس ہوتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ فائل ورک ہو بھی چکا ہو۔ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کو پہلے ہی نومبر 2027ء تک قانونی تحفظ حاصل ہے، نئی ترمیم کے بعد اکٹھی تعیناتی کا نوٹی فکیشن آئے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کے مطابق چیف آف ڈیفنس فورسز ٹیفکیشن کے حوالے سے ہر چیز بغیر کسی رکاوٹ اور پریشانی کے ہو رہی ہے۔ وزیر اطلاعات نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی ایف کے بارے میں صرف سوشل میڈیا اور الیکٹرک میڈیا پر مسئلہ بنا ہوا ہے اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ٹویٹ میں واضح بتا دیا ہے۔خواجہ آصف کی ٹویٹ میں کہاگیا تھاکہ سی ڈی ایف کے بارے میں نوٹیفکیشن مناسب وقت پر کر دیا جائے گا۔ اس بارے میں کسی قیاس آرائی کی کوئی گنجائش نہیں ۔
وفاقی وزیرریلوے حنیف عباسی کا گذشتہ روز کہناتھا کہ فیلڈمارشل عاصم منیر ہی چیف آف ڈیفنس فورسزہیں۔
قانونی ماہرین اور تجزیہ کار اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ چونکہ سی ڈی ایف کا عہدہ ایک نیا منصب ہے اور کوئی پرانی پوسٹ نہیں، اس لیے اس پر تقرری کے لیے باقاعدہ نوٹیفکیشن ضروری ہے۔وزرانے بھی یہی کہاہے کہ نوٹیفکیشن کیا جائے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ حکومت کی جانب سے اتنی خاموشی نے پہلے ہی طرح طرح کے اندازوں اور سازشی نظریات کو جنم دے دیا تھا۔اگر صورتحال میں کسی بڑی رکاوٹ کی وجہ سے تعطل ہے تو پھر اس تاخیر کا وقت انتہائی ناموزوں ہے۔ 27ویں آئینی ترمیم منظور ہو چکی ہے اور سی ڈی ایف کی تقرری آئین کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر کوئی رکاوٹ تھی تو اسے ترمیم منظور ہونے سے پہلے ہی دور کر لینا چاہیے تھا۔مبصرین یہ نکتہ بھی اٹھارہے ہیں کہ یہ صرف طریقہ کارکی تاخیر ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos