عمران خان :
یونان کشتی حادثے کے بعد ایف آئی اے میں جاری محکمانہ احتسابی کارروائی نے ادارے کے اندرونی کمزوریوں اور غفلت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
سیکریٹری داخلہ و انسداد منشیات نے کراچی، فیصل آباد اور ملتان ایئرپورٹس پر تعینات متعدد افسران اور اہلکاروں کو برطرف کرنے سمیت دیگر سزائیں نافذ کی ہیں۔ جو نہ صرف افسران کی پیشہ ورانہ غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بلکہ ادارے کے عمومی نظم و نسق کی کمزوریوں کی نشاندہی بھی کرتی ہیں۔
’’امت‘‘ کو ایف آئی اے اسلام آباد کے اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ یونان کشتی حادثہ (بحیرہ روم میں کشتی ڈوبنے سے 400 سے زائد پاکستانی اپنے مستقبل کے سنہرے خوابوں سمیت سمندر برد ہوگئے تھے) کے حوالے سے ڈھائی برس سے جاری انکوائریوں اور تحقیقاتی کمیٹیوں کی رپورٹس پر اب ڈپٹی ڈائریکٹرز سمیت متعدد افسران نوکریوں سے برطرف کر دیے گئے ہیں۔
جبکہ گزشتہ دو برس کی کارروائیوں میں اب تک 100 سے زائد ماتحت افسران کو بھی برطرف کیا جاچکا ہے۔ جس میں کانسٹیبلز، ہیڈ کانسٹیبلز، اے ایس آئیز اور سب انسپکٹرز سطح کے افسران اور اہلکار شامل ہیں۔ تاہم احتساب کے اس عمل کو اعلیٰ دفاتر تک پہنچنے میں ڈھائی برس کا طویل عرصہ لگ گیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بھی سرکاری اداروں میں موجود سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کے عمل کو تیز اور شفاف بنانے کے بہت سے اقدامات ناگزیز ہیں۔
اس ضمن میں دستیاب معلومات کے مطابق یونان کشتی حادثہ2023ء میں غفلت برتنے پر کراچی ایئرپورٹ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر اور دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو برطرف کیا گیا۔ فیصل آباد ایئرپورٹ کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو بھی اسی نوعیت کے الزامات کی بنیاد پر ملازمت سے برخاست کیا گیا۔ اسی طرح ملتان ایئرپورٹ پر تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر کو انسانی اسمگلرز کے مبینہ روابط پر تین سال کے لئے عہدے اور تنخواہ میں کمی کی سزا دی گئی۔ مزید بتایا گیا کہ ناقص تفتیش کے الزام میں دو سینئر انوسٹی گیٹرز اور غفلت و لاپروائی کے الزام میں ایک اسسٹنٹ ڈیٹا بیس ایڈمنسٹریٹر کو بھی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ چار اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور ایک انسپکٹر کو غیر حاضری، غفلت اور ناقص تفتیش کے سبب تنخواہ کے بنیادی پے اسکیل میں ایک سے تین سال کی کمی کی سزا دی گئی۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر قیدی کے ساتھ بدسلوکی پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور انسپکٹر کو بھی سینشور کی سزا سنائی گئی۔
سیکریٹری داخلہ نے مزید چھ سب انسپکٹرز، ایک اے ایس آئی، تین ہیڈ کانسٹیبلز اور پانچ کانسٹیبلز کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے برطرفی کی سزا برقرار رکھی ہے۔ جبکہ غیر حاضری کے الزام پر ایل ڈی سی کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سپرنٹنڈنٹ اور سب انسپکٹر کی اپیل پر پروموشن روکنے کی سزا کو سینشور میں تبدیل کیا گیا۔ ذرائع کے بقول یہ احتسابی کارروائیاں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب ایف آئی اے کے اندرونی نظام اور عملی طور پر افسران کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے تھے۔ یونان کشتی حادثہ محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک بڑی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ جہاں ادارے کی داخلی نگرانی، تربیت اور ذمہ داری کے معیار پر شدید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول اس کے ساتھ ہی ملک کے بڑے ایئرپورٹس پر مسافروں کو غیر ضروری طور پر ’آف لوڈ‘ کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا۔ سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کی وائرل رپورٹنگ اور بعض اوقات مبالغہ آمیز یا جعلی دعووں نے شہریوں کی پریشانی میں مزید اضافہ کیا۔ اس کے جواب میں ایف آئی اے نے لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور اور سیالکوٹ میں خصوصی امیگریشن انفارمیشن سینٹرز قائم کیے ہیں۔ ان مراکز کا مقصد مسافروں کو سفر سے قبل ویزا دستاویزات، سفری اجازت نامے، پاسپورٹ امور، پروٹیکٹر کلیئرنس اور انٹری/ ایگزٹ پالیسیوں کے بارے میں جامع معلومات فراہم کرنا ہے۔ یہ مراکز شہریوں اور ایئرپورٹ امیگریشن ڈیسک کے درمیان سہولت کار رابطے کا کردار ادا کریں گے۔ تاکہ ایئرپورٹس پر غیر ضروری رکاوٹیں اور بدنظمی کم ہو۔
حکام کے مطابق یہ اقدامات خاص طور پر اس لیے ضروری ہو گئے ہیں، کیونکہ یورپ جانے والے ٹرانزٹ ویزہ ہولڈرز اور ورک ویزہ رکھنے والے افراد کے بڑھتے ہوئے غیر قانونی یا غیر مناسب سفر نے ایئرپورٹس پر افسران کی اضافی ذمہ داری پیدا کی تھی۔ کچھ مسافر ایسے بھی تھے جو ایجنٹ کے جھانسے میں آ کر اپنے سفر کی تفصیلات یا ویزے کی نوعیت سے واقف نہیں تھے۔ جس سے نہ صرف ان کی ذاتی حفاظت خطرے میں پڑتی، بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ پر بھی اثر پڑتا تھا۔ ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام نے بتایا کہ نئے انفارمیشن سینٹرز کی بدولت مسافروں کو سفر سے پہلے اپنی دستاویزات درست طور پر تیار کرنے کی سہولت ملے گی۔ جس سے ایئرپورٹس پر غیر ضروری تنازعات، بدنظمی اور آف لوڈنگ کے واقعات میں نمایاں کمی متوقع ہے۔
ذرائع کے بقول دیکھا جائے تو یونان کشتی حادثہ اور اس کے بعد کی برطرفیاں صرف افسران کی انفرادی غفلت کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ ایک بڑے نظامی خلا کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ کراچی، فیصل آباد اور ملتان کے ایئرپورٹس پر تعینات افسران کی ناقص نگرانی اور انسانی اسمگلنگ کے مشتبہ تعلقات سے ادارے کی داخلی کمزوریوں کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ یہ صورتحال خاص طور پر خطرناک اس لیے بھی ہے کہ انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل و حرکت نہ صرف قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ بلکہ ملک کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے معاملات میں ناکامی کی صورت میں نہ صرف مسافر متاثر ہوتے ہیں۔ بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات میں بھی رکاوٹ آتی ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے کی جانے والی یہ برطرفیاں اور سزائیں ایک واضح پیغام ہیں کہ ادارے میں غفلت اور ناقص تفتیش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ساتھ ہی امیگریشن انفارمیشن سینٹرز کے قیام سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ادارہ اب proactive اقدامات کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں میڈیا سے منسلک ایک افسر کے بقول سوشل میڈیا پر یونان کشتی حادثے کے بعد آنے والے ردعمل نے بھی ادارے پر دبائو بڑھایا۔ عوامی تنقید، وائرل ویڈیوز اور رپورٹس نے یہ واضح کر دیا کہ شہری ادارے کی کارکردگی پر مکمل نظر رکھتے ہیں اور ہر غفلت کی سزا چاہتے ہیں۔
کراچی- فیصل آباد اور ملتان ایئرپورٹس پر تعینات 100 سے زائد افسران و اہلکاروں کو برطرف کردیا گیا- 5 شہروں میں خصوصی امیگریشن انفارمیشن سینٹرز قائم- مقصد ایئرپورٹس پر غیر ضروری تنازعات- بد نظمی اور آف لوڈنگ کے واقعات کو کم کرنا ہے
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos