آسٹریلیا میں 16سال سے کم عمربچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی کا اطلاق ہوگیا۔اس قانونی اقدام پر دنیابھر کی نگاہیں مرکوزہیں۔ ایک سال پہلے کی گئی قانون سازی،10دسمبر کو، موثر ہوتے ہی عالمی ذرائع ابلاغ نے معاملے کو غیر معمولی ،خصوصی کوریج دیناشروع کردی۔
الجزیرہ نے بتایاکہ نئے قانون کے تحت، جو بدھ کو مقامی وقت کے مطابق آدھی رات کو نافذ ہوا (منگل کو 13:00 GMT)، 10 بڑے پلیٹ فارمز کو 33ملین ڈالر جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا اگر وہ آسٹریلیا میں مقیم 16 سال سے کم عمر کے صارفین کو ہٹانے میں ناکام رہتے ہیں۔الجزیرہ کے رپورٹر ڈینیئل رابرٹسن نے سڈنی سے رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ بدھ کی صبح لاکھوں آسٹریلوی ایک "نئی آن لائن دنیا” میں جاگے، جس میں نوجوانوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو غیر فعال پایا۔آسٹریلیا باضابطہ طور پر اس تجربے کا آغاز کر رہا ہے جسے دنیا بھر کے قانون سازوں کی طرف سے بغور دیکھا جائے گا۔
قانون کے تحت،ٹاک ٹاک،فیس بک، انسٹاگرام ،یوٹیوب، اسنیپ چیٹ، ریڈٹ،سٹریمنگ پلیٹ فارم کک، ٹویچ ،تھریڈز اور ایکس کم سن صارفین کو اپنی خدمات استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اور وہ عمر کی تصدیق کے لیے چہرے کی شناخت اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ ٹیکنالوجیز استعمال کریں گے۔ روبلوکس، پنٹیرسٹ اور واٹس ایپ اس فہرست میں شامل نہیں لیکن زیرغورہیں۔
قانون کے تحت، پلیٹ فارمز کو یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے49 اعشاریہ 5ملین آسٹریلین ڈالر (32 ملین امریکی ڈالر) تک کے جرمانے سے بچنے کے لیے، انڈر 16 کے ذریعے استعمال کیے گئے اکاؤنٹس کو غیر فعال کرنے، اور نئے اکاؤنٹس کھولنے سے روکنے کے لیے معقول اقدامات کیے ہیں۔
آسٹریلوی حکومت تسلیم کرتی ہے کہ پابندی شروع میں مکمل طورپرنتیجہ خیز نہیں ہوگی، اور نوعمر نوجوان اس سے بچنے کے طریقے تلاش کریں گے۔تاہم دنیاکے بہت سے ملکوں کو اس بات میں گہری دلچسپی ہے کہ آیا آسٹریلیا کی وسیع پابندیاں سوشل میڈیا کے ممکنہ خطرات سے بچانے میں پوری دنیا کے لیے ریگولیٹرز کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔ملائیشیا نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اگلے سال اسی طرح کی پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔آسٹریلیا کی وزیر برائے مواصلات انیکا ویلز نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یورپی کمیشن، فرانس، ڈنمارک، یونان، رومانیہ اور نیوزی لینڈ بھی سوشل میڈیا کے لیے کم از کم عمر مقرر کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی لیڈسٹوری بھی آسٹریلیامیں سوشل میڈیاپر پابندی ہے۔’’آسٹریلیا کے لاکھوں بچے سوشل میڈیا تک رسائی سے محروم ہو گئے۔ کیا ہو رہا ہے اور کیا یہ کام کرے گا؟‘‘نشریاتی ادارے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایاکہ آسٹریلیا بھر کے بچے بدھ کے روز بیدار ہوئے جس میں دنیا کی پہلی پابندی کے تحت اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی نہیں تھی جو 16 سال سے کم عمر افراد کو لت لگانے والے الگورتھم، آن لائن شکاریوں اور ناپسندیدہ ڈیجیٹل عناصرسے محفوظ رکھنے کے لیے لگائی گئی ہے۔کسی بھی دوسری قوم نے اس طرح کے بڑے پیمانے پر اقدامات نہیں کیے، اور دنیا بھر کے قانون سازوں کی طرف سے سخت نئے قانون کے نفاذ کو قریب سے دیکھا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم انتھونی البانی نے نشریاتی ادارے اے بی سی کے ساتھ گفتگومیں کہا کہ یہ آسٹریلیا کے لیے فخر کا دن ہے۔آج آسٹریلوی خاندان ان بڑی ٹیک کمپنیوں سے اختیار واپس لے رہے ہیں۔ وہ کم عمرصارفین کے بچے ہونے کے حق پر زور دے رہے ہیں اور والدین کے لیے ذہنی سکون زیادہ ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے اس موضوع پر براہ راست کوریج کا اہتمام کیا ہے۔اس پر آسٹریلوی وزیراعظم کی پریس کانفرنس کو نمایاں طورپرشائع کیا گیا۔ آسٹریلیا کا وزیر اعظم ہونے پر میرا فخر آج سے زیادہ کبھی اتنازیادہ نہیں تھا انتھونی البانیز نے اپنی تقریر کے آغاز میں پابندی کو عالمی سطح پر سرکردہ قرار دیتے ہوئے کہا۔ پالیسی بچوں کو اپنا بچپن گزارنے اور والدین کو ذہنی سکون پانے کی اجازت دے گی، انہوں نے کہا۔ اس کے اثرات بھی دنیا بھر میں محسوس کیے جائیںگے، البانی نے کہا۔آسٹریلوی وزیرمواصلات انیکا ویلز نے پابندی کے حامیوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کو قبول کیا اور بچوں سے ٹریلین ڈالر کی کمپنیوں کے سامنے آنے کا مطالبہ کیا۔ای سیفٹی کمشنر جولی انمن گرانٹ نے کہا کہ انہیں پورا بھروسہ ہے کہ ٹیک انڈسٹری کے پاس اپنی ذمہ داریوں کو درستی اور مکمل بہتری کے ساتھ پورا کرنے کی صلاحیت ہے۔
بی بی سی نے تسمانیہ سے تعلق رکھنے والی 12 سالہ طالبہ فلورنس بروڈریب کا موقف شائع کیا جس نے پابندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ جاننے کے مستحق ہیں کہ ہم کون ہیں الگورتھم کے بغیر یہ بتایاجائے کہ کیا پسند کرنا ہے، کیا سوچنا ہے اور کیسا محسوس کرنا ہے۔
انڈی پینڈنٹ نیوز نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم انتھونی البانی نے منگل کے روز آسٹریلیا کے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ سوشل میڈیا پابندی کو سزا کے بجائے ایک حفاظتی اقدام کے طور پر دیکھیں۔9 دسمبر کی آدھی رات سے، فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے بڑے پلیٹ فارمز آسٹریلیا میں 16 سال سے کم عمر کے صارفین کے لیے رسائی کو بلاک کرنے پر مجبور ہوں گے، اگر وہ اس میں کمی کرتے ہیں تو انہیں بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔مسٹر البانی نے عمل درآمد سے پہلے آخری گھنٹے ان لاکھوں نوجوانوں سے اپیل کرتے ہوئے گزارے جو متاثر ہوں گے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ اقدامات مرکز میں ان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے۔یہ اقدام کسی بھی ملک کی جانب سے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا استعمال کرنے کے لیے قانونی طور پر کم از کم عمر کو نافذ کرنے کی پہلی کوشش ہے۔
انڈی پینڈنٹ کے مطابق بہت سے نوعمروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پابندی سے دوستوں کے ساتھ روابط منقطع ہو جائیں گے، خاص طور پر وہ لوگ جو گروپ چیٹس اور میسج بورڈز پر روزمرہ رابطوں کے لیے انحصار کرتے ہیں۔ان پریشانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے، مسٹر البانی نے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہیں اگر وہ تبدیلی سے پریشان ہوں توخاندان کے افراد، قابل بھروسہ بالغوں، یا قومی نوجوانوں کی ذہنی صحت کی خدمات جیسے کہ ہیڈ اسپیس اور کڈز ہیلپ لائن تک پہنچیں۔، وزیر اعظم نے بچوں پر زور دیا کہ وہ اپنی توجہ گرمیوں کی تعطیلات سے منسلک سرگرمیوں پرمرکوزکریں – بیرونی کھیل، دوستوں اور خاندان والوں کے ساتھ وقت گزاریں، اور ایسے مشاغل میں مصروف ہوں جو اکثر آن لائن استعمال کی وجہ سے رہ جاتے ہیں۔سب سے بڑھ کر، اسکول کی چھٹیوں سے اپنے فون پر اسکرول کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
نیوزی لینڈہیرالڈنے رپورٹ میں بتایاکہ 12 ماہ تک انتظار کے بعد، انڈر 16 کے لیے آسٹریلیا کی سوشل میڈیا پر پابندی نافذ العمل ہوگئی ہے، جس میں ان فرموں کے لیے بھاری جرمانے شامل ہیں جو ممنوعہ عمر کے صارفین کو روکنے میں ناکام رہیں گی۔نئے ضابطوں کے کچھ عناصرواضح اورباقی مبہم ہیں۔ عمر کی تصدیق کے کچھ ٹیسٹ پہلے ہی ناکام ہو رہے ہیں۔
تمام بڑے نشریاتی اداروں نے اس حوالے سے آسٹریلیاکے حکام بالخصوص وزیراعظم کے خطاب اور وڈیو پیغامات کو نمایاں طورپر نشرکیاہے۔یوٹیوب اور دیگر آن لائن میڈیا پلیٹ فارمزپر خصوصی وڈیوزاور بلاگزدیئے جارہے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos