پاکستان میں جرمنی جانے کے منتظر 640 افغان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔جرمن وزارت داخلہ کی ترجمان سونجا کوک نے انکشاف کیا ہے کہ جن افغانوں کو بتایا گیا تھا کہ وہ جرمنی منتقل ہو سکتے ہیں انہیں اگلے چند دنوں میں بتایا جائے گا کہ ان کے داخلے میں اب کوئی سیاسی دلچسپی نہیں۔
جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعدبرلن حکومت نے اس گروپ کو پناہ دینے کا وعدہ کیا تھالیکن اس وعدے کو منسوخ کیا جا رہا ہے کیونکہ برلن میں چانسلر فریڈرک مرز کی حکومت کا مقصد حتی الوسع آبادکاری کے پروگراموں کو ختم کرنا ہے۔
سوشل ڈیموکریٹس، گرینز اور لبرلز پر مشتمل پچھلی حکومت نے افغانستان سے حقوق نسواں کے کارکنوں، وکلاء، صحافیوں اور حزب اختلاف کی دیگر شخصیات کو انسانی حقوق کی فہرست اوربرجنگ لسٹ کے ذریعے قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم، وزیر داخلہ الیگزینڈر ڈوبرینڈ نے ان وعدوں پر یو ٹرن لیتے ہوئے،جو 2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد سے چلے آرہے تھے انہیں ورثے میں ملے مسائل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان میں جرمن وزارتوں کے لیے کام کرنے والے مقامی عملے کے لیے دوبارہ آباد کاری کا تیسرا پروگرام متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے، ان کارکنوں اور ان کے خاندانوں کو یہ خبر ای میل کے ذریعے موصول ہوئی۔ اس گروپ کی ترجمان، ایوا بیئر نے جرمن خبررساں ادارے کو بتایا کہ جرمنی کے سرکاری پروگرام سے کمٹمنٹ حاصل کرنے والے تقریباً 130 افراد کو بتایا گیا ہے کہ انہیں جرمنی نہیں لے جایاجائے گا۔
یہ ای میل جرمن حکومت کی ترقیاتی امدادی ایجنسی GIZ کی طرف سے بھیجی گئی تھی۔ اس کا فیصلہ کن جملہ یہ ہے: مزید تفصیلی جانچ کے بعد، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اقامتی قانون کے سیکشن 22 کے تحت جرمنی میں داخلہ دینے کی کوئی بنیاد نہیں ۔ جرمن وزارت داخلہ سے سونجا کوک نے تصدیق کی کہ اس کا مطلب ہے کہ مقامی عملے کے باقی 220 میں سے صرف 90 اب داخلے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔جرمنی جانے کے لیے ایک شرط سیکیورٹی چیک پاس کرنا ہے۔
وزیر داخلہ الیگزینڈر ڈوبرینڈٹ سے جب مقامی عملے کے مسترد ہونے کے بارے میں پوچھا گیاتو انہیں اس پیش رفت کا علم نہیں تھا ، انہوں نے کہاکہ میں نے اس پر ایک رپورٹ پڑھی ہے، میں نے اپنے دفتر سے کہا ہے کہ وہ مجھے اس بارے میں بتائے۔ڈوبرینڈٹ نےیقین دلایاکہ میرے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، جسے میں نے کچھ عرصے سے واضح کر دیا ہے۔ہم افغان مہاجرین کو داخل ہونے کی اجازت دینے کےقانونی طور پر پابند ہیں، وعدہ پورا کریں گے۔ ہم خود کو مقامی عملے کے لیے ایک مسلسل ذمہ داری کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، جرمنی نے 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے اپریل 2025 تک مجموعی طور پر4ہزار مقامی عملے اور دوسرے خاندانوں کے تقریباً15 ہزارافراد کو قبول کیا ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے ملک میں جرمن گیسٹ ہاؤسز میں مقیم افغان باشندوں کو ،رواں سال ختم ہونے تک ،طالبان حکومت کے حوالے کرنے کاانتباہ دیاتھا جس کا وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔برلن میں موجودہ حکومت آنے کے بعد سے اب تک کئی سو افراد پاکستان سے جرمنی منتقل ہو چکے ہیں، خاص طور پر کمزور مقامی عملے کے علاوہ جن کا پہلے ہی ذکر کیا گیا ہے، لیکن تقریباً 1 ہزارمزید افغان اب بھی جانے کے منتظر ہیں۔
چوتھے پروگرام کے تحت ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ تاہم، حالیہ مہینوں میں، وزیر داخلہ الیگزینڈر ڈوبرینڈ نے ان وعدوں کو نظرانداز کیا ۔ہ لوگ جنہوں نے جرمنی کی عدالتوں میںمقدمہ دائر کیا تھا، اب انہیں بھی نکال دیا جائے گا۔ اب تک 84 مقدمے کامیاب ہو چکے ہیں، 195 زیر التوا ہیں۔ مزید درجنوں مقدمے تیار ہو رہے ہیں۔
چار سال کے دوران، آبادکاری کے پروگرام کے تحت تقریباً ساڑھے 3 ہزاروعدے کیے گئے تھے، جو بنیادی طور پر جرمن این جی اوز کے سابق ملازمین کے لیے تھے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos