کیا سڈنی میں یہودیوں پر حملہ کرنیوالے باپ بیٹا پاکستانی تھے؟

آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے علاقے بونڈی بیچ میں حنوکا کی تقریب پر ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں حملہ آوروں کی شناخت سامنے آ گئی ہے۔ آسٹریلوی حکام کے مطابق حملے میں نوید اکرم اور ان کے والد ساجد اکرم ملوث تھے، جو باپ بیٹا ہیں۔

ابتدائی خبروں میں اسرائیلی اور برطانوی میڈیا نے حملے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی۔ برطانوی اخبار ٹیلیگراف اور اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے ابتدا میں دعویٰ کیا کہ حملہ آور نویداکرم ہے جس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یروشلم پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ نوید اکرم نے ہمدرد یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔

تاہم بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ حملہ آور 50 سالہ باپ ساجد اکرم اور 24 سالہ بیٹانوید اکرم ہیں۔ ساجد اکرم واقعے میں مارے گئے جبکہ نوید زخمی شدید زخمی ہے۔
سوشل میڈیا پر بعض پوسٹوں میں ایک اور پاکستانی نوید اکرم کی تصویر شیئر کی گئی جس نے غلط شناخت پر تشویش ظاہر کی۔

ٹیلیگراف نے بعد ازاں اپنی رپورٹ سے پاکستانی ہونے کا حوالہ حذف کر دیا۔

ٹیلیگراف نے اپنی بعد کی رپورٹ میں کہا کہ 50 سالہ ساجد اکرم فروٹ شاپ کے مالک تھے جبکہ 24 سالہ نوید اکرم اینٹیں بنانے کا کام کرتا تھا تاہم کچھ عرصہ قبل بیروزگار ہوگیا تھا۔

حملے کے بعد پولیس نے مغربی سڈنی کے علاقے بونیرگ میں واقع ان کے گھر پر چھاپہ مارا، جو بونڈی بیچ سے تقریباً 50 کلومیٹر دور ہے۔

نوید اکرم کی والدہ ویرینا نے میڈیا سے گفتگو میں اپنے بیٹے کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ “ایک اچھا لڑکا” ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوید کے پاس اسلحہ نہیں تھا، وہ زیادہ باہر نہیں جاتا تھا اور نہ ہی نشہ آور اشیا استعمال کرتا تھا۔ والدہ کے مطابق نوید زیادہ تر کام، گھر اور ورزش تک محدود رہتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:۔ سڈنی بیچ حملہ، مسلح شخص کو دبوچ کر گن چھننے والے مسلم ہیرو کی دنیا بھر میں پذیرائی

اہلِ خانہ کے مطابق باپ بیٹے نے حملے سے قبل گھر والوں کو بتایا تھا کہ وہ سڈنی سے جنوب میں واقع جروِس بے میں ماہی گیری کے لیے جا رہے ہیں۔ والدہ کا کہنا ہے کہ حملے سے چند گھنٹے قبل اتوار کی صبح نوید سے آخری بار بات ہوئی تھی، جس میں اس نے تیراکی اور اسکوبا ڈائیونگ کا ذکر کیا۔

ٹیلیگراف کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پر آسٹریلیا کے ایک اسلامی مرکز کی پوسٹس کے مطابق نوید اکرم نے 2022 میں مذہبی تعلیم مکمل کی تھی، جس کے بعد ممکنہ انتہاپسندی اور شدت پسند نیٹ ورکس سے تعلق کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ المراد اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ایڈم اسماعیل نے ٹیلیگراف کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

یہ بھی پڑھیں۔ آسٹریلیا:سڈنی میں یہودی تہوار کی تقریب کے دوران فائرنگ، 10 افراد ہلاک

ادھر اسرائیلی میڈیا اسے پاکستان اور ایران سے جوڑنے کیلئے سرگرم ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق اگر کسی ریاستی کردار کے شواہد ملتے ہیں تو ایران کو مرکزی مشتبہ فریق کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جبکہ حزب اللہ، حماس اور پاکستان میں قائم لشکرِ طیبہ سمیت دیگر تنظیموں سے ممکنہ روابط کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاہم آسٹریلوی حکام نے تاحال کسی غیر ملکی مداخلت کی باضابطہ تصدیق نہیں کی۔

یہ حملہ آسٹریلیا کی تاریخ کے بدترین دہشت گرد واقعات میں شمار کیا جا رہا ہے، جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے۔

آسٹریلوی میڈیا نے اگرچہ حملہ آور کی قومیت کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں لیکن مبینہ حملہ آور کا نام سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر اس کی شناخت سے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

بہت سے اکاؤنٹس نے، جن میں سے متعدد کا تعلق انڈیا سے بھی تھا آسٹریلوی میڈیا میں نشر کی جانے والی حملہ آور کی تصویر کے ساتھ ساتھ ایسی تصاویر بھی شیئر کیں جن میں ایک نوجوان کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جرسی پہنے دیکھا جا سکتا تھا۔
آسٹریلیا سے بی سی سی اردو سے بات کرتے ہوئے نوید اکرم بتاتے ہیں کہ مجھے اتنا تو پتا چل گیا تھا کہ بونڈائی میں ایک واقعہ ہوا ہے تاہم یہ نہیں پتا تھا کہ کس نے کیا، کیوں کیا ۔۔۔ ’کچھ دیر میں میرے ایک دوست کی کال آئی اور اس نے کہا کہ تمھاری تصویر ٹوئٹر پر وائرل ہے اور تھیں حملہ آور کہا جا رہا ہے۔‘

نوید اکرم کہتے ہیں کہ یہ میرے لیے ایک ٹراما جیسا تھا۔۔۔ یہ ایک بہت خطرناک واقعہ ہے اور ’اتنے خطرناک واقعے سے میرا نام جوڑنا، میرے لیے جان لیوا ہو سکتا ہے۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔