ایران نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران اپنی عسکری ناکامیوں کا کھلے عام جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔حکام نے غلط اندازوں اورفضائی دفاعی نظام کے نقائص کو تسلیم کرلیا،اس کے ساتھ ہی اہم فوجی اثاثوں کو ملک میں دوردرازمقامات پر منتقل کرناشروع کردیاگیا ہے۔
ایرانی فلم ساز جواد مقوئی کی جانب سے یوٹیوب پر نشر کیے گئے انٹرویوز میں عسکری قیادت اور حکومتی عہدیداروں نے اعتراف کیا کہ مقامی ریڈار نظام اسرائیلی طیاروں اور ڈرونز کو تہران کے اندر حملے کرنے سے روکنے میں ناکام رہے۔ حکام نے اسرائیلی کارروائیوں کے انداز پر حیرت کا اظہار کیا خاص طور پر گھروں میں موجود عسکری کمانڈروں اور جوہری سائنس دانوں کو نشانہ بنانے پر۔ پاسداران انقلاب کے نائب کمانڈر محمد رضا نقدی نے کہا کہ جنگ کے دوران دشمن کے طریقہ کار نے ہمیں حیران کر دیا۔ ہم نے غلط اندازہ لگایا اور اب تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سے خطا ہوئی۔ ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ کمانڈروں اور سائنس دانوں کو ان کے گھروں میں اہل خانہ سمیت نشانہ بنایا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کا جولائی 2024ء میں تہران میں قتل سب سے شرمناک لمحہ ثابت ہوا۔ اس وقت ایران نے جواب دینے سے گریز کیا۔ آج ایرانی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ اسٹریٹجک تحمل نہیں تھا بلکہ اس تلخ حقیقت کا ادراک تھا کہ اس مرحلے پر مؤثر ردعمل کی صلاحیت موجود نہیں تھی اور عسکری تیاری کی بحالی کے لیے وقت درکار تھا۔
پاسداران انقلاب کے ترجمان بریگیڈیئر علی محمد نائینی نے کہا ہے کہ جنگ کے بعد ایران نے میزائلوں کی درستی اور کارکردگی بہتر بنانے پر کام کیا ہے۔ ان کے بقول ہم چوبیس گھنٹے نئی سطح کی تیاری کے لیے سرگرم ہیں۔ اگر طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل نہ ہوتے تو یہ جنگ بارہ دن کے بجائے آٹھ سال تک جاری رہتی جیسا کہ عراق کے ساتھ ہوا تھا اور دفاع سے حملے میں جانے میں گھنٹوں کے بجائے ایک سال لگ جاتا۔
تہران میں تعینات ایک سینئر مغربی سفارت کار نے کہا کہ ایران ممکنہ طور پر میزائل تنصیبات کو ملک کے مشرقی حصوں میں منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے تاکہ انہیں اسرائیلی اور امریکی طیاروں کی پہنچ سے دور رکھا جا سکے۔ اس پر نقدی نے کہا کہ اگر ہمارے اہداف دشمن کی پہنچ سے باہر رہیں تو کوئی نئی جنگ نہیں ہو گی۔ حملے کی قیمت دشمن کے لیے اس کے ممکنہ فائدے سے زیادہ ہونی چاہیے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایک ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کے باوجود جن میں عسکری کمانڈر اور جوہری سائنس دان شامل ہیں عسکری تیاری تیزی سے بحال کی جا رہی ہے۔مغربی سفارت کار اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا ایران اپنی عسکری صلاحیتوں کی بحالی کے لیے روس چین اور پاکستان جیسے ممالک سے بیرونی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں۔
ان اعترافات کے ساتھ ہی ایک عسکری نمائش بھی منعقد کی گئی جس میں بیلسٹک اور انتہائی تیز رفتار میزائل ڈرونز بکتر بند گاڑیاں اور ایک اسرائیلی ڈرون کے ملبے کی نمائش کی گئی جسے تہران کے مطابق جنگ کے دوران مار گرایا گیا تھا۔ نمائش کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر علی بلالی نے کہا کہ مقصد یہ دکھانا ہے کہ یہ تمام ہتھیار مقامی طور پر تیار کیے گئے ہیں اور وطن کے دفاع کے لیے مخصوص ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اب میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی میں ترقی یافتہ ممالک کے کلب میں شامل ہو چکا ہے۔ مغربی تہران میں واقع ایران نیشنل ایوی ایشن اینڈ اسپیس پارک میں اسٹریٹجک ہتھیار عوام کے سامنے پیش کیے گئے ہیں۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمزکے مطابق اس اقدام کا مقصد اندرونی بیانیہ ازسرنو ترتیب دینا اور جنگ کے بعد ڈیٹرینس کی شبیہ بحال کرنا ہے۔
عوامی سطح پر ایوی ایشن اور اسپیس نمائش سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا گیاہے اوروہ یہ کہ ایران کا مستقبل محض میزائل پروگرام کے تحفظ سے نہیں بلکہ اس کی مزید مضبوطی سے جڑا ہے۔ ایرانی ماہرین سمجھتے ہیں اگر ہم نے اپنے میزائل پروگرام سے دستبرداری اختیار کی تو اگلی بار کہیں زیادہ شدید حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جنگ کے بعد ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ میزائل ہمارے لیے کس قدر اہم ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos