بنگلا دیش میں نوجوان سیاسی رہنما شریف عثمان ہادی کی موت کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔دارالحکومت ڈھاکا میں مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر عوامی لیگ اور میڈیا دفاتر کو آگ لگا دی، توڑ پھوڑ کرکے اہم سڑکیں بند کردیں ۔ مقامی ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی فوٹیج کے مطابق، مظاہرین نے دارالحکومت کو مرکزی شہر میمن سنگھ سے ملانے والی ایک اہم شاہراہ کو بند کر دیا اور ملک کے جنوب مشرق میں چٹاگانگ میں ایک سابق وزیر کی رہائش گاہ پر حملہ کیا۔
مظاہرین کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کی بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔احتجاج کے دوران مظاہرین نے عثمان ہادی کے حق میں نعرے لگائے اور انصاف کی فراہمی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ہادی پر حملے کے ذمہ داروں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
راجشاہی میں مظاہرین کی جانب سے شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ کو بھی نذر آتش کرنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔بنگلہ دیش میں بھارتی نائب سفیر کے گھر کو بھی سینکڑوں لوگوں نے گھیر لیا لیکن پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔حکام نے مظاہروں کے پیش نظر مختلف علاقوں میں سکیورٹی سخت کر دی۔
32 سالہ عثمان ہادی گذشتہ سال جولائی میں حسینہ واجد حکومت کا تختہ الٹنے والی طلبہ تحریک کے اہم رہنما تھے اور طلبہ رہنماؤں کے قائم کردہ سیاسی پلیٹ فارم انقلاب منچہ کے ترجمان بھی تھے۔انہیں گزشتہ جمعے کو ڈھاکا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا تھا۔ عثمان ہادی کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا تاہم انہیں مزید علاج کے لیے ہفتے کے روز سنگاپور منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دوران علاج انتقال کرگئے۔سنگاپور کی وزارت خارجہ کے مطابق انقلاب منچہ کے کنوینر وینٹی لیٹر پر تھےکیونکہ ان کے کئی اعضاء نے کام چھوڑدیاتھا۔ عثمان ہادی کی موت کے تصدیقی بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کی بہترین کوششوں کے باوجود شریف عثمان ہادی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
بنگلادیشی حکام کا کہنا ہے کہ قاتل کی شناخت فیصل کریم مسعود کے نام سے کی گئی ہے، موٹرسائیکل چلانے والے کی شناخت عالمگیر شیخ کے نام سے کی گئی۔تفتیشی حکام کاکہنا ہےکہ دونوں مشتبہ افراد بھارت کی سرحد سے غیرقانونی طور پر داخل ہوئے تھے اور بھارت ہی فرار ہوگئے۔
فائر بریگیڈ اور ترجمان شہری دفاع نے بتایا کہ نوجوان رہنما کی موت کی خبر پھیلنے کے بعد ڈھاکہ میں آتشزنی کے کم از کم تین واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں ڈیلی سٹار کی عمارت اور پرتھم الو اخبار کی عمارت شامل ہے۔دونوں اخبارات سب سے بڑے بنگلہ دیشی جرائد ہیں، مظاہرین نے ان پر بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام لگایا، جہاں حسینہ نے پناہ لی ہے۔ڈیلی سٹار کی رپورٹر ائمہ اسلام نے بتایا کہ وہ جلتی ہوئی عمارت کے اندر پھنسی ہوئی تھیں۔انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھاکہ میں مزید سانس نہیں لے سکتی۔ بہت زیادہ دھواں ہے۔ میں اندر ہوں، تم مجھے ماردوگے۔
دریں اثناء بنگلہ دیشی پولیس نے شوٹروں کی تلاش کے لیے دو اہم مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کی ہیں اور ان کی گرفتاری کی اطلاع دینے پر پچاس لاکھ ٹکا (تقریباً 42 ہزارامریکی ڈالر) انعام کی پیشکش کی ہے۔بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی سٹار کی رپورٹ کے مطابق ملک کی پولیس اور سرحدی محافظوں نے اب تک اس واقعے سے منسلک کم از کم 20 افراد کو گرفتار کیا ہے تاہم تحقیقات جاری ہیں۔
چیف ایڈوائزر محمد یونس نے شہریوں سے صبر وتحمل سے کام لینے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وحشیانہ قتل کی تحقیقات کاموقع دینے کے لیے کہا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ تمام ذمہ داروں کو سخت ترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہادی کے اعزاز میں ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos