’’سن رائز‘‘:تباہ شدہ غزہ کو ایک درخشاں شہرمیں بدلنے کا امریکی منصوبہ

امریکہ نے غزہ کی تعمیر نوکا 20سالہ منصوبہ پیش کیا ہے جس میں پرتعیش ساحلی ریزورٹس، انتہائی تیز رفتار ٹرینیں اور مصنوعی ذہانت سے اسمارٹ بجلی کے نیٹ ورک شامل ہوں گے۔۔ یہ تمام سہولیات جنگ سے تباہ غزہ کی پٹی کے لیے امریکہ کا پیش کردہ ایک خیالی منصوبہ ہے جسے’’سن رائز‘‘جیسے پرکشش عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔

اس منصوبے کی تفصیلات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ غیر ملکی حکومتوں اور سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کر رہی ہے، تاکہ غزہ کے ملبے کو ایک جدید اور مستقبل دوست ساحلی شہر میں تبدیل کیا جا سکے۔صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی قیادت میں ایک ٹیم نے اس کا ابتدائی مسودہ تیار کیا ہے۔ اس مسودے میں جنگ سے تباہ شدہ غزہ کو ایک جدید اور درخشاں شہر میں بدلنے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

یہ تجویز 32 صفحات پر مشتمل پاور پوائنٹ سلائیڈز میں پیش کی گئی ہے، جن میں ساحل کے کنارے بلند عمارتوں کی فرضی تصاویر، گراف اور اخراجات کے جدول شامل ہیں۔ اس میں ایسے اقدامات بیان کیے گئے ہیں جن کا مقصد غزہ کے باسیوں کو خیموں سے نکال کر پُرتعیش اپارٹمنٹس تک اور غربت سے خوشحالی کی طرف لے جانا ہے۔ اس میں ان ممالک یا کمپنیوں کی نشاندہی نہیں کی گئی جو تعمیر نو کے لیے مالی معاونت فراہم کریں گی اور نہ اس بات کی واضح وضاحت کی گئی ہے کہ تعمیر نو کے دوران تقریباً بیس لاکھ بے گھر فلسطینی کہاں قیام کریں گے؟

امریکی حکام کے مطابق امریکہ نے یہ سلائیڈز ممکنہ عطیہ دہندگان کو دکھائی ہیں۔تاہم بعض امریکی حکام جنہوں نے اس منصوبے کا جائزہ لیا ہے، اس کی حقیقت پسندی پر سنجیدہ شکوک کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کے لیے اسلحہ چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے، جو منصوبے کے آغاز کے لیے بنیادی شرط ہے۔ حتیٰ کہ اگر ایسا ہو بھی جائے تو یہ واضح نہیں کہ واشنگٹن جنگ کے بعد کے خطرناک ماحول کو ایک اعلیٰ ٹیکنالوجی شہر میں بدلنے کے اخراجات کے لیے امیر ممالک کو کیسے قائل کرے گا۔اس کے برعکس بعض دیگر حلقوں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ اب تک کی سب سے تفصیلی اور پُرامید تصویر پیش کرتا ہے کہ اگر حماس ہتھیار ڈال دے اور دہائیوں پر محیط تنازع کا خاتمہ ہو جائے تو غزہ کی صورت حال کیسی ہو سکتی ہے۔

اس منصوبے کی مدت دس برس ہوگی جس میں112 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ اس میں سرکاری شعبے کی تنخواہیں بھی شامل ہیں، ابتدائی مرحلے میں انسانی ضروریات پر نمایاں توجہ دی جائے گی۔ امریکہ اس دوران مرکزی کردار ادا کرے گا اور تقریباً 60 ارب ڈالر گرانٹس اور قرضوں کی ضمانتوں کی صورت میں فراہم کرے گا جس میں امریکہ کم از کم 20 فیصد یا اس سے زائد حصہ ادا کرے گا تاکہ متوقع تمام منصوبہ جاتی مراحل کی حمایت کی جا سکے، عالمی بینک بھی مالی کردار ادا کرے گا۔اس کے بعد توقع ہے کہ آنے والے برسوں میں غزہ کئی منصوبے خود مالی طور پر چلانے کے قابل ہو جائے گا اور مقامی اور وسیع تر معیشت میں بہتری کے ساتھ اپنے قرضوں کی ادائیگی شروع کر دے گا۔

60 ارب ڈالر کی مالی معاونت گرانٹس اور نئے قرضوں کے ذریعے فراہم کی جائے گی،منصوبے کے دوسرے عشرے میں اخراجات میں کمی کی توقع ہے، کیونکہ غزہ سے آمدن حاصل ہونا شروع ہو جائے گی۔ منصوبے کے مطابق دسویں سال سے ساحلی پٹی کے 70 فیصد حصے میں سرمایہ کاری کی جائے گی، جس سے طویل المدتی سرمایہ کاری کی آمدن 55 ارب ڈالر سے زائد ہونے کا امکان ہے۔

جیرڈ کشنر اور اسٹیو وٹکوف نے وائٹ ہاؤس کے معاون جوش گرون بام اور دیگر امریکی حکام کے ساتھ مل کر گذشتہ 45 دنوں میں یہ منصوبہ مرتب کیا ہے، جس میں اسرائیلی حکام، نجی شعبے اور کنٹریکٹرز کی آرا بھی شامل کی گئیں۔ منصوبہ شروع ہونے کی صورت میں ہر دو سال بعد اعداد و شمار کی تجدید اور نظرثانی کی جائے گی۔منصوبے میں بیس سال سے زائد عرصے پر محیط ایک روڈ میپ پیش کیا گیا ہے، جس کا آغاز تباہ شدہ عمارتوں، ناکارہ گولہ بارود اور حماس کی سرنگوں کو صاف کرنے سے ہوگا۔ اس دوران عارضی پناہ گاہیں، فیلڈ ہسپتال اور موبائل کلینکس فراہم کیے جائیں گے۔صفائی کے بعد مستقل رہائشی مکانات، طبی سہولیات، سکول اور عبادت گاہیں تعمیر کی جائیں گی، اس کے بعد سڑکوں کی تعمیر، بجلی کی فراہمی اور زرعی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا۔ ان مراحل کے بعد ہی طویل المدتی اہداف جیسے پُرتعیش ساحلی جائیدادیں اور جدید ٹرانسپورٹ مراکز قائم کیے جائیں گے۔

تعمیر نو چار مراحل میں مکمل کی جائے گی، جس کا آغاز جنوبی علاقوں رفح اور خان یونس سے ہوگا، پھر یہ عمل وسطی کیمپوں کی جانب بڑھے گا اور آخر میں غزہ شہر تک پہنچے گا۔منصوبے کی ایک سلائیڈ جس کا عنوان نیا رفح ہے، اس شہر کو غزہ میں حکومتی مرکز کے طور پر پیش کرتی ہے، جہاں پانچ لاکھ سے زائد آبادی، ایک لاکھ سے زیادہ رہائشی یونٹس، 200 سکول، 75 سے زائد طبی مراکز اور 180 مساجد اور ثقافتی مراکز ہوں گے۔

منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ غزہ کو ترقی سے محروم چھوڑنا اور انسانی بحران کو مزید بڑھنے دینا کہیں زیادہ بدتر آپشن ہے۔ ان کے مطابق بہتر راستہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے ویژن کے مطابق غزہ کو مشرق وسطیٰ کی ریویرا میں تبدیل کیا جائے۔تاہم چیلنجز انتہائی بڑے ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سال جاری رہنے والی جنگ کے دوران ہزاروں اسرائیلی حملوں کے بعد اندازہ ہے کہ تقریباً دس ہزار لاشیں اب بھی 68 ملین ٹن ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔

علاقہ بارودی مواد اور ناکار ہ گولہ بارود سے آلودہ ہے، حماس کے جنگجو بدستور غزہ میں موجود ہیں۔منصوبے میں واضح طور پر دوسرے صفحے پر سرخ نمایاں الفاظ میں درج ہے کہ غزہ کی تعمیر نو حماس کی جانب سے مکمل اسلحہ تلف کرنے اور تمام سرنگوں کے خاتمے سے مشروط ہے۔امریکی حکام کے مطابق اگر سکیورٹی حالات اجازت دیں تو اس منصوبے پر دو ماہ کے اندر عملدرآمد شروع کیا جا سکتا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔