عمران خان :
عامر انڈسٹری اور معروف بلڈر آصف دینار کے اربوں روپے مالیت کے ٹیکس چوری کے2023ء کے مقدمہ سے ایف بی آر افسران کے درمیان شروع ہونے والی رنجش گزشتہ 3 برسوں میں بھی نہ ختم ہوسکی۔ اب یہ تنازعہ باقاعدہ قانونی جنگ کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ایف بی آر کراچی کے افسران کے درمیان اس تنازعہ نے اہم شعبے کے سرکاری امور کو نہ صرف بدترین متاثر کیا ہے۔ بلکہ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے کیسز میں شامل بڑے مگرمچھوں کے خلاف موثر کارروائی اور ریکوری کے عمل کو بھی ضرب پہنچائی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات اور باخبر ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں ایف بی آر کے افسر طارق ندیم درانی نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی ہے۔ جس میں انہوں نے ایف بی آر کے متعدد سینئر افسران کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ درخواست میں چیف کمشنر کارپوریٹ ٹیکس آفس کراچی، کمشنر سی ٹی او کراچی زون ٹو، ڈپٹی کمشنر فروہ عابد (سی ٹی او زون ٹو یونٹ 5)، فریداللہ جان (چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو ریجنل ٹیکس آفس سرگودھا) اور ایف بی آر ہی ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں تعینات ممبر ایڈمن کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ ان افسران نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور قانونی جواز کے ان کیخلاف کرپشن الزامات پر مبنی انکوائریاں شروع کروائیں۔ انہیں تبادلے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور اس عمل سے ان کے کیریئر اور ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
ان کے مطابق یہ تمام اقدامات بدنیتی اور ذاتی رنجش کا نتیجہ ہیں۔ دوسری جانب اس وقت کی کمشنر سی ٹی او زون ٹو عظمیٰ ثاقب نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنا تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ طارق ندیم درانی کے خلاف کرپشن اور دیگر سنگین الزامات پر انکوائری مکمل طور پر قانونی، قواعد کے مطابق اور دستیاب شواہد کی بنیاد پر کی گئی تھی، اور اس وقت اس کارروائی کے لیے معقول جواز موجود تھا۔
ذرائع کے مطابق اس تنازعہ کی جڑیں 2023ء میں عامر انڈسٹریز کے خلاف بنائے گئے اس بڑے ٹیکس چوری کیس سے جا ملتی ہیں، جس میں جعلی اور فلائنگ انوائسز کے ذریعے اربوں روپے کے ان پٹ ٹیکس کلیمز کا انکشاف ہوا تھا۔ اس مقدمے میں طارق ندیم درانی اس وقت بطور سینئر آڈیٹر تفتیشی افسر مقرر تھے، جنہوں نے تحقیقات مکمل کرکے عدالت میں چالان جمع کروایا۔ تاہم اس چالان کے نتیجے میں مقدمے میں نامزد پندرہ ملزمان کو ریلیف مل گیا، جس پر بعد ازاں سوالات اٹھائے گئے۔ بعد میں طارق ندیم درانی کا تبادلہ ریجنل ٹیکس آفس حیدرآباد کر دیا گیا اور کیس نئے تفتیشی افسر زاہد نقوی کے سپرد کر دیا گیا۔
اسی دوران 2024ء میں کیس کے مرکزی ملزم دینار انڈسٹریز کے مالک آصف دینار، جو مقدمے میں مطلوب تھے، دبئی سے کراچی آمد پر ایئرپورٹ سے حراست میں لے لیے گئے۔ اس گرفتاری کے بعد یہ سنگین الزامات سامنے آئے کہ آصف دینار نے تفتیش کے دوران ایف بی آر افسران کو بتایا تھا کہ انہوں نے مقدمے میں شامل بعض مرکزی ملزمان سے کروڑوں روپے وصول کرکے ایف بی آر کو ادا کیے تھے۔ ذرائع کے مطابق ان دعووں کے بعد نئے تفتیشی افسر زاہد نقوی نے بھی اس پہلو کی چھان بین کی اور اپنی رپورٹ اعلیٰ ایف بی آر حکام کو پیش کی، جس سے ادارے کے اندر اختلافات مزید گہرے ہو گئے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب عدالتی دستاویزات کے مطابق طارق ندیم درانی نے اپنی آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے خلاف فیکٹ فائنڈنگ اور محکمانہ کارروائیوں کی بنیاد ایک ایسے عدالتی حکم پر رکھی گئی جس کا وجود عدالتی ریکارڈ میں سرے سے موجود ہی نہیں۔
درخواست میں بتایا گیا ہے کہ جون 2024ء میں انہیں ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب سے خطوط موصول ہوئے، جن میں اسپیشل جج کسٹمز اینڈ ٹیکسیشن کراچی کے مبینہ احکامات کی روشنی میں انکوائری شروع کرنے کا کہا گیا۔ جبکہ بعد ازاں جنوری 2025ء میں فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا نوٹس بھی جاری کر دیا گیا۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس مبینہ عدالتی حکم کی تصدیق کیلئے متعلقہ عدالت سے رجوع کیا تو عدالتی ریکارڈ میں اس نوعیت کا کوئی حکم موجود نہیں تھا۔ مزید یہ کہ انہیں سول سرونٹس ایکٹ اور ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن رولز 1973 کے تحت نہ تو کوئی شوکاز نوٹس جاری کیا گیا اور نہ ہی کوئی باضابطہ محکمانہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔ درخواست میں یہ قانونی نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ چونکہ ای اینڈ ڈی رولز کے تحت کوئی قابلِ اپیل حکم جاری نہیں ہوا۔ اس لیے آئین کے آرٹیکل 212 کے تحت ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار پر پابندی لاگو نہیں ہوتی۔ درخواست گزار نے عدالتی نظائر کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ابتدائی نوعیت کی غیر قانونی کارروائیوں کا جائزہ آئینی عدالت لے سکتی ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ جون 2024ء اور جنوری 2025ء کے انکوائری نوٹسز کو قانون کے مطابق جانچا جائے اور حتمی فیصلے تک انہیں کسی ممکنہ تادیبی کارروائی سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
دوسری جانب ایف بی آر ذرائع کے مطابق 2023ء کے آغاز میں کارپوریٹ ٹیکس آفس کراچی نے عامر انڈسٹریز کے خلاف ٹیکس چوری کا ایک بڑا کیس بنایا تھا، جس میں درجن سے زائد بااثر افراد کو نامزد کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش میں یہ موقف سامنے آیا کہ آصف دینار ایک ایسے منظم نیٹ ورک میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے جو جعلی انوائسز کے ذریعے بڑے پیمانے پر ٹیکس واجبات سے بچائو کیلئے استعمال ہو رہا تھا، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کے نقصان کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران 12 ستمبر 2023ء کو PRAL سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر سیلز ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے سے متعلق تکنیکی تفصیلات، بشمول آئی پی ایڈریس، پورٹ نمبر، تاریخ اور وقت کا جائزہ لیا گیا۔ اس سلسلے میں متعلقہ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر کنیکٹ کمیونیکیشنز کے شاہراہِ فیصل دفتر سے تصدیق کی گئی کہ ریٹرنز سائما ٹریڈ ٹاور، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی کے آفس نمبر 807 سے فائل کی گئی تھیں۔
بعد ازاں تفتیشی ٹیم نے مذکورہ دفتر کا معائنہ کیا جہاں تین لا فرمیں کام کر رہی تھیں۔ جن میں بلال حمید اینڈ کمپنی، بیکن لا ایسوسی ایٹس اور عبید لا ایسوسی ایٹس شامل ہیں۔ تفتیشی ٹیم کے مطابق تینوں ٹیکس کنسلٹنٹس اور ان کا عملہ موقع پر موجود تھا۔ پوری رات جاری رہنے والی تفتیش کے باوجود کوئی ٹھوس شواہد برآمد نہ ہو سکے۔ اگلے دن ٹیکس کنسلٹنٹس سے مزید پوچھ گچھ کی گئی، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ریٹرنز فائل ہونے کے وقت وہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں موجود تھے۔ تاہم اس بات کی وضاحت نہ ہو سکی کہ ان کی غیر موجودگی میں دفاتر کے کمپیوٹرز کیسے استعمال ہوئے۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق یہ کیس ایف بی آر کے اندر احتساب، انکوائری کے طریقہ کار اور ادارہ جاتی شفافیت کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف اس مقدمے بلکہ آئندہ ایسے تمام معاملات کیلئے نظیر بن سکتا ہے، جہاں سرکاری افسران کے خلاف کارروائی اور آئینی دائرہ اختیار پر سوالات اٹھتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos