فائل فوٹو
فائل فوٹو

2026میں بھی دنیا کئی بڑے بحرانوں کی لپیٹ میں ہوگی

نیا سال جنگی اور موسمی لحاظ سے تباہ کن ہونے کی پیش گوئی سامنے آگئی۔

کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق 2026ء میں دنیا ایک ساتھ کئی بڑے بحرانوں کی لپیٹ میں ہوگی۔ روس اور نیٹو کے درمیان براہ راست فوجی ٹکراؤ کا خدشہ اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ جبکہ تائیوان پر چین کا فوجی دباؤ امریکہ کو ایک بڑی جنگ میں کھینچ سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے حوالے سے انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی رپورٹس ایک ہولناک انسانی المیے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جہاں سوڈان کی خانہ جنگی سرحدوں کو عبور کرکے پورے خطے کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بنے گی۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست میزائل جنگ کے بڑھتے امکانات کے ساتھ ساتھ، دجلہ و فرات کے بیسن میں پانی کی شدید قلت ترکی، شام اور عراق کے درمیان واٹر وارز کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے۔

گلوبل گارڈین کے مطابق پاک بھارت سرحد پر بڑھتی فوجی کشیدگی بھی کا ایک بڑا خطرہ ہے۔ اسی طرح پاک افغان محاذ بھی گرم رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جبکہ غزہ جنگ کا دوبارہ آغاز، وینزویلا اور امریکہ کے درمیان جنگ، شمالی کوریا اور جنوبی کوریلا کے درمیان تصادم کے بھی واضح خطرات موجود ہیں۔ یمن اور سعودیہ کے درمیان کشیدگی فل اسکیل جنگ کی جانب بڑھ سکتی ہے۔

دوسری جانب جرمن واچ کے کلائیمٹ رسک انڈیکس 2026ء کے مطابق نیا سال انسانی تاریخ کے گرم ترین برسوں میں سے ایک ہوسکتا ہے۔ قطب شمالی کی برف پگھلنے کی رفتار میں تیزی سے بحری سطح میں اضافہ ہوگا۔ جس سے ایشیا اور یورپ کے ساحلی شہروں کو سیلاب کا مستقل خطرہ لاحق رہے گا۔ اس کے علاوہ ہیٹ ویوز اور بے موسمی بارشیں زراعت کو تباہ کر دیں گی۔

امریکی نیشنل ویدر سروس 2026ء کی رپورٹس کے مطابق بحرِ اوقیانوس کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور لانینا کے اثرات فلوریڈا سے ٹیکساس تک کیٹیگری 5 کے تباہ کن سمندری طوفانوں کا پیش خیمہ بنیں گے۔ ٹورنیڈو ایلی کے مہلک بگولے کینٹکی اور مسیسیپی جیسی ریاستوں میں انفرااسٹرکچر کو تہس نہس کر سکتے ہیں۔ جبکہ مغربی امریکہ کی ریاستیں جنگلاتی آگ کی لپیٹ میں ہوں گی۔

ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کی گلوبل رسک رپورٹ 2026ء میں سائبر وبا کو سب سے بڑا غیر فوجی خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مصنوعی ذہانت کا غلط استعمال عالمی معیشت اور مواصلاتی نظام کو مفلوج کر سکتا ہے۔ ہیکرز کے ذریعے بجلی کے گرڈز، بینکنگ سسٹمز اور اسپتالوں کے ڈیٹا پر حملے میں عام ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیپ فیک اور غلط معلومات کا پھیلاؤ عالمی سطح پر معاشرتی خلفشار اور عوامی اعتماد کی تباہی کا باعث بنے گا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مطابق 2026ء میں عالمی معیشت قرضوں کے بم پر کھڑی ہوگی۔

مسلسل افراطِ زر اور بلند شرحِ سود کی وجہ سے کئی ترقی پذیر ممالک بشمول ارجنٹائن، مصر اور پاکستان شدید معاشی دباؤ کا شکار رہیں گے۔ عالمی مہنگائی اور کاروباری مندی کا یہ طوفان کروڑوں لوگوں کو غربت کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔ حیرت انگیز طور ان پیش گوئیوں کے آثار واضح ہونے لگے ہیں۔ روسی حکام نے پیوٹن کی رہائش گاہ پر ڈرون حملے کی کوشش کے بعد برابر کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔

عالمی سفارتکاروں کو خدشہ ہے کہ روس اب یوکرین کے اہم صدارتی مقامات یا نیٹو کے سپلائی روٹس کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ جو براہِ راست تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ سعودی عرب نے یمن کی بندرگاہ پر محدود فوجی آپریشن کے تحت شدید بمباری کی ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہاں متحدہ عرب امارات کے راستے سے آنے والی ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے نے خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کو کشیدہ اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کی آگ بھڑکا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مغربی دنیا 2026ء میں داخلی بحران کا شکار رہے گی۔ جہاں امریکہ اور یورپ میں انتہا پسند تحریکوں کا عروج جمہوری نظام کیلئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

ادھر امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جنوبی کوریا کو ایٹمی آبدوزیں بنانے کی حمایت کے بعد شمالی کوریا نے اسے اعلانِ جنگ قرار دیتے ہوئے اپنی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں غیر معمولی تیزی لانے کا انتباہ دیا ہے۔ ماہرین اسے خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی نئی اور خطرناک ترین دوڑ قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح صدر ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ امریکی فوج نے وینزویلا کے ساحلی علاقوں میں میزائل حملے کیے ہیں۔ یہ آپریشن لاطینی امریکہ میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

چین نے تائیوان کے گرد لائیو فائر فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ جس کی وجہ سے تائیوان کی فضائی حدود سے گزرنے والی ایک لاکھ سے زائد پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔ اسے تائیوان پر ممکنہ حملے کی ریہرسل قرار دیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں فلوریڈا میں ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ملاقات میں ایران پر حملے، مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ بنانے اور غزہ کے رہائشیوں کو صومالی لینڈ منتقل کرنے کے منصوبوں کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔