واشنگٹن:امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے دوبارہ اس بات کی تجویز دی ہے کہ پاکستان کو خاص تشویش والا ملک قرار دیا جائے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے پہلے کی طرح اسے مسترد کردیا ہے
یو ایس سی آئی آرایف کی جانب سے یہ تجاویز 2002 سے دی جارہی لیکن اس وقت سے اب تک یکے بعد دیگرے امریکی انتظامیہ نے مختلف بنیادوں پر اسے نظرانداز کرتی رہی ہے کہ اس سے پاکستان میں مذہبی آزادی کو فروغ دینے میں ناکامی ہوگی۔
خیال رہے کہ 22 دسمبر2017 کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کی جانب سے پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں شامل ہونے یا برداشت کرنے سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
اس کےعلاوہ اس اقدام کے حوالے سے میڈیا میں بیانات گردش کررہے تھے کہ رواں سال انتظامیہ پاکستان کو خاص تشویش ناک ملک قراردے سکتی ہے اوراس پرنئی پابندیوں کا اطلاق بھی ہوسکتا ہے لیکن پاکستان رواں سال بھی اس میں شامل ہونے سے محفوظ رہا۔
اس حوالے سے امریکی کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس پاکستان میں50 افراد کو توہینِ مذہب کے الزام میں قید کیا گیا جس میں 17 کو سزائے موت دی گئی۔
امریکی کمشین کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں انتظامیہ نے توہینِ مذہب کا قانون نافذ کیا ہوا ہے جس کی کم سے کم سزا عمرقید اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت دی جاسکتی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مذہب کو جواز بنا کر اشتعال انگیزی کرنا ایک عالمی مسئلہ ہے اوراس سے پاکستان، افغانستان، بھارت، ایران اور روس میں اقلیتیں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا بڑے پیمانے پرسامنا کررہی ہیں۔
امریکی ادارے کی رپورٹ میں مشال خان قتل کا بھی ذکر کیا گیا اوربتایا گیا ہے کہ اپریل 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہینِ مذہب کا الزام لگا کر ایک طالب علم کو تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا تھا جبکہ اس کیس کی تفتیش میں یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا۔
اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ سال 2017 میں نامعلوم حملہ آوروں نے پاکستان میں شیعہ برادری اور ہزارہ برادری کے افراد کو فرقہ وارایت کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا جن میں ہزاہ برادری پر حملوں کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا اور گزشتہ ایک سال کے عرصے میں 5 مختلف واقعات میں 15 افراد کو قتل کردیا گیا۔