پاکستان کا امریکی سپلائی لائن روکنے پر غور

 

اسلام آباد: وزیرخارجہ خرم دستگیر نےکہا ہے کہ امریکہ پاکستان تعلقات خراب ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے سے بات کرنے پر رضامند نہیں ۔پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لے رہا ہے، پاکستان افغانستان میں موجود امریکی فوج کیلئے سپلائی لائن روک سکتا ہے۔

وزیر خارجہ خرم دستگیر نے غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان طویل عرصے سے ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں تاہم اس وقت دوطرفہ تعلقات میں بگاڑ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اونچی سطح پر رابطے مکمل طور پر منقطع ہو چکے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ اب صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفیر دفتر خارجہ میں آ کر ہمارے اہلکاروں سے بات کرتے ہیں اور واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر امریکی محکمہ خارجہ سے بات کرتے ہیں۔ یہ دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے رابطوں کا طریقہ نہیں ہے اور اب پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کر رہے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے رابطے برقرار نہ رکھنے پر اصرار کی وجہ سے تعلقات خراب ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں اور یہ ایسی صورت حال ہے جس میں پاکستان کے مؤقف کو سنے جانے کے بجائے محض نگرانی پر رکھا جا رہا ہے۔ رسمی طور پر پاکستان اب بھی امریکہ کا ایک کلیدی نان نیٹو اتحادی ہے اور امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دہشت گردوں کو مالی اعانت فراہم کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کروانے پر اصرار نے پاکستانی حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے۔دو طرفہ تعلقات اُس وقت مزید بگڑ گئے جب امریکی حکومت نے امریکہ میں موجود پاکستان کے سفارتی عملے کو سفارتی مشن کے 25 میل کے دائرے میں رہنے کیلئے پابند کر دیا جس کے جواب میں پاکستان نے امریکی سفارتی عملے پر بھی ایسی ہی پابندیاں عائد کر دیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے امریکی سفارتی عملے کو سیکورٹی فراہم کرنے کی یک طرفہ سہولت بھی واپس لے لی ہے۔

وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران امریکہ کی طرف سے ملنے والی سول اور فوجی امداد سے ملک کے بجٹ خسارے کو کم کرنے میں مدد ملی تھی۔ تاہم اس سال امریکی امداد مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ خراب تعلقات کے باوجود پاکستان نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کیلئے سپلائی لائن منقطع نہیں کی تھی۔ تاہم اب پاکستان کو اپنے تمام آپشنز پر غور کرنا ہو گا۔