شریف خاندان کی گلف اسٹیل کا 1980 کا معاہدہ جعلی تھا۔واجد ضیا

احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت میں سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کی جانب مسلسل تیسری سماعت پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی گئی۔
تفصیلات کے مطابق نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت میں ہوئی۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کیس کی سماعت کی جب کہ ریفرنس میں نامزد ملزم نواز شریف کمرہ عدالت میں موجود تھے۔نوازشریف کے وکیل نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا پر جرح کی۔
واجد ضیا نے بتایا کہ گلف اسٹیل کے 1978 کے شیئرز سیل معاہدے کے مطابق نواز شریف کے کزن طارق شفیع اور ماموں محمد حسین شرکت دار تھے، جے آئی ٹی نے طارق شفیع سے محمد حسین کے بیٹے شہزاد حسین کا ایڈریس پوچھا لیکن طارق شفیع نے محمد شہزاد کا پتہ و رابطہ نمبر نہیں دیا، جے آئی ٹی نے شہزاد حسین کے ایڈریس کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن نہیں ملا، 1980 کا معاہدہ جعلی تھا، معاہدے کے دوسرے گواہ لاہور سے محمد اکرم تھے، محمد اکرم کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔
العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے واجد ضیاء پر جرح مؤخر کرتے ہوئے لندن فلیٹس ریفرنس میں پراسیکیوشن سے کل حتمی دلائل طلب کرلیے۔
یاد رہے کہ 31مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر دوران جرح واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل مل کا شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے یا وہ مالی معاملات دیکھتے ہوں یا وہ العزیزیہ کے لیے بینکوں یا مالی اداروں سے ڈیل کرتے ہوں۔واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ دستاویزی ثبوت نہیں جو ظاہر کرے کہ نواز شریف نے العزیزیہ کی کسی دستاویز پر کبھی دستخط کیے ہوں۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ گلف اسٹیل ملز 1980 میں 90 لاکھ ڈالر میں فروخت کی گئی تھی۔ اس کے بعد حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بیان میں کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں قائم گلف اسٹیل مل کی مشینری 50 سے 60 ٹرکوں میں جدہ منتقل کی گئی، اس مشینری سے العزیزیہ اسٹیل قائم کی گئی۔