چیف جسٹس نے واٹرپالیسی پرتجاویز طلب کرلیں

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے پانی کی قلت سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں پانی کا مسئلہ مستقبل میں خطرناک ناسور بن سکتا ہے اوراس مسئلے پر بلی کی طرح آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اسلام آباد میں پانی کی قلت پرازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ۔ عدالت میں میٹروپولیٹن حکام اورایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دارالحکومت کو 58.7 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جارہا ہے، پانی کی طلب 120 ملین گیلن سے بھی زیادہ ہے۔

 

اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی کے بعد اسلام آباد میں بھی ٹینکرزکا پانی فروخت ہورہا ہے، دارالحکومت میں 1500 روپے کا ٹینکر فروخت ہوتا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نےکہا کہ ناقص پالیسیوں سے سملی ڈیم میں پانی نہیں جارہا، گزشتہ 2 سال سے حکومتوں نے پانی کے لیے کچھ نہیں کیا۔

دوران سماعت میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے حکام نے بتایا کہ تربیلا ڈیم سے پانی لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، 70 ارب کا منصوبہ ہے، صرف 500 ملین جاری ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حکومتوں نے پانی کو ترجیح بنا کرفنڈز کا بندوبست کیا؟ پانی کے مسئلے کے ذمہ دار صاحب اقتدارلوگ ہیں، دل کرتا ہے ڈیم بنانے اورملک کا قرضہ اتارنے کیلئے جھولی پھیلا کر چندہ مانگوں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ درخت لگانےکا کام بھی صرف کاغذوں میں ہی ہے، پانی کا مسئلہ واٹر بم بنتا جارہا ہے، پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ نہیں کیا گیا، روز بیٹھ کرحکومت کا آڈٹ نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ووٹ کوعزت دو کا مطلب یہ ہےکہ لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دیئے جائیں، پانی کے مسئلے پربلی کی طرح آنکھیں بند نہیں کرسکتے، ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا، اربوں روپے کا پانی ہم منرلز کے ساتھ سمندر میں ضائع کر رہے ہیں، پانی کا مسئلہ مستقبل میں خطرناک ناسور بن سکتا ہے۔

عدالت نے اعتزازاحسن کو معاون مقررکرتے ہوئے واٹر پالیسی پر دو سے تین دن میں تجاویز طلب کرلیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن پینے کے پانی اور پانی کے ذخیروں سے متعلق رپورٹ دیں۔