اسلام آباد : سپریم کورٹ بار کے سابق صدر رشید اے رضوی نے کہاہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے عدلیہ نے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ بیرون ملک موجود ملزمان کی حوصلہ شکنی کرکےانہیں کسی طرح عدالتوں میں بلا لیاجائے،پروٹیکٹڈ بل کا مقصد بھی یہی ہے کہ بیرون ملک مقیم ملزمان ملک واپس آکر عدالتی کارروائی کا سامنا کریں،نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر عدلیہ اس طرح کے اقدامات نہیں کرے گی تو ملزمان بیرون ملک بیٹھے رہیں گے،عدالتیں ان کی سمن جاری کرتی رہے گیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلے گااوربے مقصد مقدمات چلتے رہیں گے ،رشید اے رضوی نے کہا کہ اگر پرویز مشرف واقعی وطن واپس آنا چاہتے ہیں تو وہ عدلیہ کے اس حکم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً واپس آجائیں اپنے مقدمات کا سامنا کریں اور الیکشن بھی لڑیں۔ رشید اے رضوی نے عدلیہ کی جانب سے نوازشریف اور جہانگیر ترین کے نااہلی کے فیصلوں کے باوجود الیکشن کا حصہ بننے کے فیصلےپر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ابھی مجرم قرار نہیں پائے ہیں، یہ سزا وار اس وقت قرار پائیں گے، جب وہ کسی عدالت سے اپنی جرم کی سزاپائیں گے،ابھی انہیں کسی عدالت سے سزا نہیں ہوئی ہے،لہٰذا یہ لوگ الیکشن پروسز کا حصہ بن سکتے ہیں۔
اسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون علی احمد کرد نے کہا کہ سپریم کورٹ پرویز مشرف سے متعلق آرڈر پاس نہیں کرسکتی تھی ،سپریم کورٹ نےاس حولے سے جو کچھ کیا ہے وہ غلط کیا ہے،سپریم کورٹ کے پاس پرویز مشرف کے وارنٹ کو منسوخ کرنے کی وجہ نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ تمام عدالتوں کے اختیارات کی حدود ہوتی ہے،سپریم کورٹ خصوصی عدالتوں کے اختیارات کو اوور لیپ نہیں کرسکتی،خصوصی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ ہے جس میں کئی سماعتیں ہوچکی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے لیکن عدالتوں میں کارروائی ہوتی رہی،اس کے باوجود سپریم کورٹ اسے واپس بلا رہی ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے گرفتار نہ کیا جائے،اب ایگزیکٹیو کس کے حکم پر عمل کرے ،وہ سپریم کورٹ کے احکامات کو تسلیم کرے یا خصوصی عدالتوں کے احکامات پر عمل کرے؟،انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ نے شاہانہ مزاج اختیار کرلیاہے،اس سے آئین اور عدالتوں کو فائدہ نہیں ہوگا،ہمیں سپریم کورٹ کے احکامات پر تنقید کرنی چاہئے اور کھل کر بات کرنی چاہئے،جو احکامات درست ہیں وہ ٹھیک لیکن غلط احکامات کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔