بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہارمیں ایک جج نے اپنی بیٹی کو گھر میں صرف اس لئے قید کر رکھا تھا کہ وہ کسی سے محبت کرتی ہے۔
اپنی بیٹی کی محبت سے ناراض ضلع جج نے اپنے گھر میں اسے نظربند کر رکھا تھا لیکن پٹنہ ہائیکورٹ نے لڑکی کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے اس کی آزادی کا حکم دے دیا۔
اس معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے جج نے حکم دیا ہے کہ 15 دنوں کے لیے اس لڑکی کے لئے علیحدہ رہائش کا انتظام کیا جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ لڑکی کی 24 گھنٹے سکیورٹی کے لئے خواتین کانسٹیبل تعینات کی جائیں اوراس دوران اسے اس لڑکے سے ملنے کی اجازت بھی ہوگی جسے وہ پسند کرتی ہے۔
ضلع جج کے وکیل سنڈیپ شاہی نے بتایا کہ عدالت نے متاثرہ لڑکی سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے والدین کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو اس کا جواب نہیں تھا اور اس نے کہا کہ وہ اپنے محبوب کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بعد عدالت نے اسے علیحدہ رہنے اورسکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا۔
قانون کی تعلیم میں گریجویٹ یہ لڑکی دلی کے ایک نوجوان سے محبت کرتی ہے۔ جب لڑکی کے اہل خانہ کو اس کی محبت کا علم ہوا توانھوں نے اسے گھر میں نظربند کردیا تھا۔ بعد میں جب یہ خبر ایک قانونی پورٹل پر شائع ہوئی تو پٹنہ ہائ کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیا۔
چیف جسٹس راجیندرمینن نے اس لڑکی کو جج کے چیمبر میں پیش کئے جانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کے حکم کے مطابق پٹنہ پولیس کی خصوصی ٹیم نے لڑکی کو عدالت پہنچایا۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے متاثرہ لڑکی کو خاندان سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ سنایا۔
اس لڑکی سے محبت کرنے والے لڑکے نے عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے سے بہت خوش ہے۔
دونوں محبت کرنے والوں کے وکیل راجیو کمار شریوستو نے کہا انھوں نے بہار پولیس افسران کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انھیں ہائی کورٹ سے مدد ملی۔
اس معاملے میں عدالت نے میڈیا کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ لڑکی، لڑکے اوران کے خاندان کا نام ظاہرنہ کریں۔
اس سے پہلے اس واقعے کے متعلق مقامی میڈیا میں یہ خبریں آتی رہیں کہ لڑکی کو گھر میں زدوکوب کیا جاتا تھا، اسے کھانا نہیں دیا جاتا تھا اور اس کا موبائل فون چھین لیا جاتا تھا۔ اس کیس کی اگلی سماعت 12 جولائی کو ہوگی۔