اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو روکیں ، عدلیہ میں ججز کو اپروچ کیا جارہا ہے، ججز کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں،ان کی زندگیاں محفوظ نہیں ۔
سماعت کے دوران عدالت میں آئی ایس آئی کا نمائندہ پیش ہوا ۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ آپ کے لوگ اپنی مرضی کے بنچ بنوانے کی کوشش کرتے ہیں ، آرمی چیف کو پتہ ہونا چاہیئے کہ ان کے لوگ کیا رہے ہیں ۔
عدالت نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ شہریوں ، بزنس مین اوربااثر افراد کواسلام آباد سے اٹھانا معمول بن چکا ہے، حساس ادارے اپنی آئینی ذمہ داری کو سمجھیں ، عدلیہ ، ایگزیکٹیواوردیگراداروں میں مداخلت روکی جائے۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ حساس ادارے ملک کے دفاع اور سیکیورٹی پرتوجہ دیں ، ریاست کے اندرریاست کا تصورختم کیا جائے، اگردیگراداروں میں مداخلت کو نہ روکا گیا تو یہ فوج اورریاست کے لئے تباہ کن ہوگا۔
جسٹس صدیقی نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ آرمی چیف اس الارمنگ صورتحال کو سمجھیں اوردیگراداروں میں اپنے لوگوں کی مداخلت روکیں۔
عدالت نے عدالتی حکم کی کاپی آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی ، سیکریٹری دفاع اورسیکریٹری داخلہ کو پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔
عدالت میں پیش کئے گئے ایک بازیاب شخص رب نواز نے بتایا کہ نامعلوم افراد اسے آنکھوں پرپٹی باندھ کرلے گئے تھے۔
عدالت نے اسلام آباد پولیس کے ایس پی انوسٹی گیشن زبیرشیخ پراظہار برہمی کیا ۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ جو افسرسچ نہ بول سکے اور خوف و مصلحت کا شکارہواسے پولیس میں نہیں ہونا چاہیئے۔