نقیب قتل کیس کے ملزم راؤ انوار کی ضمانت پر رہائی

کراچی:انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیراورنقیب اللہ ماورائے عدالت کیس میں نامزد راؤانور کے رہائی کے احکامات پردستخط کردیئے جس کے بعد راؤ انوار کو رہا کردیا گیا ہے۔ راؤانوار کے گھر کے باہر سے سیکیورٹی بھی ہٹادی گئی ہے جبکہ ان کے گھر کو سب جیل بنانے کا نوٹیفکیشن بھی منسوخ کردیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی جعلی پولیس مقابلے، دھماکا خیز مواد رکھنے اورغیر قانونی اسلحہ کیس میں ضمانت ہوچکی ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم راؤ انوارکی ایک ضمانت 10 جولائی اوردوسری 20 جولائی کو منظور کی تھی جبکہ 10،10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

ملزم کی جانب سے ضمانتی مچلکے جمع کرائے جانے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے راؤ انور کی رہائی کے احکامات پردستخط کردیئے۔

عدالت کے دستخط کے بعد جیل حکام کو راؤ انوار کی دونوں مقدمات میں رہائی کا حکم نامہ آج ہی بھیجا جائے گا۔

عدالت کی جانب سے راؤ انوار کو جیل بھیجنے کے احکامات کے بعد محکمہ داخلہ نے ان کی رہائش گاہ کو ہی سب جیل قراردیا تھا۔

اب عدالت کی جانب سے راؤ انوار کی رہائی کے احکامات ملتے ہی ان کی رہائش گاہ پر تعینات جیل پولیس کے اہلکاروں کو ہٹا لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ 13 جنوری کوملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیرراؤانوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کرجعلی مقابلے میں مار دیا تھا۔

بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پراس کی تصاویراورفنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب تنقید کی گئی اورپاکستانی میڈیا نے بھی اسے خوب کوریج دی تھی۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پرآواز اٹھائی تھی اور وزیرداخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔

نقیب اللہ کے والد خان محمد نے واقعے کا مقدمہ درج کرایا تھا جس میں راؤ انوارکو نامزد کیا گیا تھا۔ پولیس کے اعلیٰ افسران پر مشتمل کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات کرکے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قراردیا تھا اورمقتول نقیب اللہ کو بیگناہ قراردے کر راؤ انوارکی گرفتاری کی سفارش کی تھی ۔

تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کرنام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے پراز خود نوٹس بھی لیا تھا۔

ملزم راؤ انوارکچھ عرصے تک روپوش رہے تاہم 21 مارچ کو وہ اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے جہاں عدالت نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔