دفترخارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ افغانستان کے علاقے غزنی میں بم دھماکے کے پاکستان پرالزامات درست نہیں، بھارتی وزیراعظم کا بیان کوئی نیا نہیں۔
اگر بھارت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو اقوام متحدہ کے کمیشن آف انکوائری کو مقبوضہ کشمیرکا دورہ کرنے کی اجازت دے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان مسلسل کہہ رہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کا راستہ مذاکرات ہی ہیں، کشمیر کے مسئلہ کا حل اقوام متدہ کی قرارداوں کے مطابق ہونا چاہیئے۔
بھارت ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے اورپاکستان میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کی موجودگی بھارتی وزیراعظم کے دعوؤں کی نفی ہے تاہم پاکستان کلبھوشن کیس عالمی عدالت انصاف میں لڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی جارحیت سے 5 مزید شہری شہید ہوچکے ہیں جبکہ حریت رہنماؤں کی جیل میں صحت سے متعلق خبروں پر تشویش ہے۔
عمران خان کے خلاف بھارتی میڈیا کے واویلا پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا کو بڑے ہوجانے کی ضرورت ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا تعلقات کی بنیاد پر ہے تاہم پاکستان سعودیہ سمیت کینیڈا کی سفارتی کشیدگی کو مانیٹر کررہا ہے۔
ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے وفد کے ساتھ وزارت خزانہ کے حکام کام کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ امریکا سے فوجی تربیت کا پروگرام معطل ہوگیا ہے اوراس معاملے پربات چیت جاری ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان سارک سمٹ کرانے کے لئے تیار ہے اور سید علی گیلانی سمیت دیگر حریت رہنماوں کی نظر بندی کی بھرپورمذمت کرتے ہیں۔
افغانستان کے تناظر میں انہوں نے واضح کیا کہ دسمبر 2019 تک پاک افغان سرحد پر باڑ کی تکمیل مشکل ہے، پاک افغان بارڈر کی طوالت اور دشوار ترین راستے اس کی وجہ ہیں۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ بارڈر پر کنٹرول بہتر بنانے کے لیے باڑ لگا رہا ہے اورافغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے افغان وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔
دیامر اور بھاشا ڈیم کے تناظر میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان توانائی اور تجارتی روابط کا حامی ہے اور بھارت کی پاکستان میں مداخلت ڈھکی چھپی نہیں جبکہ پاکستان دیامر اور بھاشا ڈیم کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کی مداخلت سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالب علم کے معاملے پر آسٹریلیا سے سخت احتجاج کیا گیا اور آسٹریلیا سے پاکستانیوں کی حفاظت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔