اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزاؤں کے خلاف اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے تفصیلی فیصلہ تحریر کیا ۔ تفصیلی فیصلے میں احتساب عدالت کے فیصلے کو اپیلوں کی درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ نیب نے ضمانت کی درخواستوں پر بحث کے لیے زیادہ سہارا پاناما فیصلے کا لیا، احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خریداری میں مریم نواز کی نوازشریف کو معاونت کا حوالہ نہیں دیا، اس کے علاوہ احتساب عدالت کے فیصلے میں مریم نواز کی معاونت کے شواہد کا ذکر بھی نہیں۔ عدالت نے ملزمان کو نائن اے فور میں بری کیا لیکن استغاثہ نے ملزمان کی بریت کو چیلنج نہیں کیا۔ ملزمان کے وکیل کی اس دلیل میں وزن ہے کہ ایک ہی جائیداد سے متعلق ایک جیسے شواہد پر نائن اے فور میں بری تو نائن اے فائیو میں سزا کیسے ہو سکتی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کے وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا تعین ہی نہیں کیا گیا جس کے جواب میں کوئی ریکارڈ فراہم کرنے کے بجائے کہا گیا کہ قیمت کے تعین کے لیے گوگل کیا جا سکتا ہے۔ تجربہ کار اور پروفیشنل وکلا سے اس طرح کے جواب کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے بادی النظر میں ملزمان کو دی گئی سزائیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں۔ عدالتی فائنڈنگز حتمی نہیں، ہماری رائے یا آبزرویشنز اپیلوں کو متاثر نہیں کرے گی۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت نے رواں برس جولائی میں ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 جب کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 19 ستمبر کوتینوں افراد کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ عدالت عالیہ نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلے میں حکم دیا تھا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ ہونے تک سزا معطل رہے گی۔