سپریم کورٹ کی ولدیت سےنام ہٹانےکے معاملہ پرشرعی معاونت کی ہدایت

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کفالت نہ کرنے پر دستاویزات میں سے والد کا نام نکال کربنت پاکستان لکھنے کی درخواست کرنے والی لڑکی کے کیس کی سماعت کے دوران چند سوالات اٹھاتے ہوئے شرعی طور پر معاونت طلب کرلی۔
واضح رہے کہ 22 سالہ پاکستانی لڑکی تطہیر فاطمہ نے گزشتہ ماہ کے آغاز میں اپنے برتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں سے والد کا نام ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جس شخص نے کبھی اسے دیکھا نہیں اور ہی نہ کفالت کی، وہ والد کیسے کہلا سکتا ہے؟
لڑکی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ اس کے برتھ سرٹیفکیٹ، تمام ڈگریوں اور دستاویزات سے والد کا نام ختم کر دیا جائے، کیونکہ وہ اس نام سے الگ ہونا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آج مذکورہ درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ بچی کہتی ہے میرا نام تطہیر فاطمہ ہے میرے نام کے ساتھ سے والد کا نام ہٹایا جائے، کیا ہم یہ فیصلہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟
انہوں نے سوالات اٹھائے کہ اگر والد اپنے بچے کی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا تو کیا ولدیت میں اس کا نام لکھا جاسکتا ہے؟ بتایا جائے کہ ایسے والد کا نام برتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر سرکاری دستاویزات سے ہٹایا جاسکتا ہے؟
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کا مقدمہ پاکستان کی جوڈیشل تاریخ میں کبھی نہیں آیا، ہمیں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا ہے،کیا ہم یہ کیس وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیں؟
چیف جسٹس نے عدالتی معاون مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ ان تمام سوالات پر عدالت کی معاونت کریں۔
جس پر عدالتی معاون نے کہا کہ ریاست شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائنسز کے حصول کے لیے والد کی تفصیلات مانگتی ہے، لیکن چند ممالک میں پاسپورٹ پر والد کا نام نہیں لکھا ہوا ہوتا، لہذا نام اندراج سے متعلق اٹارنی جنرل بہترین رائے دے سکتے ہیں۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بتایا کہ نام ہٹانے کے لیے نادرا ایکٹ، موٹر وہیکل آرڈیننس اور پاسپورٹ ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ قانونی طور پر ممکن ہے کہ اپنے حقیقی والد سے لاتعلقی کی جاسکے؟