اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل مکمل فعال ہے اور اب ججز کا بھی احتساب شروع ہوچکا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ بے ہائی کورٹس کی ذیلی عدالتوں کے سپروائزری کردار سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے بینچ نمبر ون نے سات ہزار کیس نمبٹانے ہیں ججز سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں بیس کیس نمبٹائے ہیں کم کیسز کے فیصلے کرنے والے ججز کے خلاف بھی آرٹیکل دو سو نو کے تحت کاروائی ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اب بہت ایکٹو ہے ججز کا احتساب بھی شروع ہو چکا ہے، لوگ چیخ چیخ کر مر جاتے ہیں مگر انہیں انصاف نہیں ملتا ہے، لوگ تڑپ رہے ہیں، بلک رہے ہیں کسی کو کوئی فکر نہیں۔
بنچ کے سربراہ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اپنی سپروائزری ذمہ داریوں میں ناکام نظر آتی ہائیکورٹس کی نگران کمیٹیاں ان معاملات کو کیوں نہیں دیکھ رہیں، ہر ججز کو گاڑی چاہیے، بنگلہ چاہیے مالی چاہیے، مراعات چاہیں۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ہم ہائیکورٹ کی نگران کمیٹیوں کے ججز کو چمبر میں بلا کر انکی کارکردگی پوچھیں، اگر ہم یہ کہہ دیں کہ ہائیکورٹ کے سپروائزری کردار سے مطمئن نہیں تو آپ کیا کہیں گے۔
جس پر انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مظفر گڑھ کے ایک ڈسٹرکٹ جج نے پوچھنے پر بتایا کہ انہوں نے بائیس کیسوں کا فیصلہ کیا ہےاب کام نہ کرنے والے ججز کے خلاف بھی مس کنڈکٹ کی کارروائی ہو گی۔
یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔
شوکت عزیز صدیقی نے رواں سال 21 جولائی کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا، ان کے اس بیان پر سپریم جوڈیشل کونسل نے از خود کارروائی کی۔
جسٹس شوکت صدیقی ملکی تاریخ کے دوسرے جج ہیں جن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
اس سے قبل 1973 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔