اسلام آباد: ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب لاہور شہزاد سلیم کی ڈگری سے متعلق اپنا موقف تین بار موقف تبدیل کیا۔
واضح رہے کہ ڈی جی نیب لاہور نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ انہوں نے 2002 میں الخیر یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، تاہم ڈگری دو سال کی حاضری اور کریڈٹ آورز پر دی جاتی ہے جبکہ ڈی جی اس دوران ہمیشہ ڈیوٹی پر رہے اور کبھی چھٹی نہ لی۔
رپورٹ کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کی ڈگری سے متعلق اپنا موقف تین بار تبدیل کیا۔واضح رہے کہ نیب اہلکار کی مشکوک ڈگری کی ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 20 اکتوبر 2015 کو تصدیق کی تھی۔
تاہم اپریل 2018 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنا موقف تبدیل کیا اور کہا کہ ادارے نے بے توجہی میں ڈگری کی تصدیق کردی کیونکہ ڈگری پر کیمپس کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اسے یونیورسٹی کے قانونی کیمپس سے جاری شدہ تصور کیا جو آزاد کشمیر میں ہے۔
رپورٹ کے مطابق جمعے کو ہائر ایجوکیشن کمیشن اور نیب نے 19 جون 2018 کا ایک خط میڈیا میں گردش کروایا، جس میں ڈی جی نیب لاہور کی ڈگری کی تصدیق کی گئی تھی۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ترجمان عائشہ اکرام کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی اپنی تصدیق پر قائم ہے اور ادارے کی جانب سے جاری کیا گیا تازہ ترین خط ہی ادارے کا موقف تصور کیا جائے۔
تاہم اسسٹنٹ اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ منصور طارق نے ڈگری کی حقیقت کھول کر رکھ دی اور بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے آزاد کشمیر کیمپس کے علاوہ الخیر یونیورسٹی کے تمام کیمپسز کو غیر قانونی قرار دیا ہے، لہذا دیگر کیمپس کی جانب سے جاری کردہ ڈگری محض کاغذ کا ٹکڑا ہے اور کچھ نہیں۔
واضح رہے کہ اسد کھرل نامی شہری نے ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی جعلی ڈگری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔