اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی 100 روزہ کارکردگی پر شدید تنقید کی ہے اور حکومتی 100 روزہ اقدامات کو مایوس کن قرار دیا ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کا ہی اشتہار ترمیم کے بعد ٹوئٹ کیا جس میں لکھا تھا کہ ہم مصروف تھے یوٹرن لینے میں، نیا پاکستان، 100 دن اور 100 یوٹرن۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی سابقہ اتحادی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا خانیوال میں حکومت کے 100 دنوں کی کارکردگی کے ردعمل میں کہنا تھا کہ حکومت کے 100 دن پورے ہوگئے ہیں جس پر شکر ادا کرنا چاہئے اور حکومت کو خود ہی اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ آج لوگ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں لیکن حکومت نے ایک بھی ایسا کام نہیں کیاجو خود کارکردگی کا بتائے۔
ان کا کہنا ہے کہ 100 دن اپوزیشن نے نہیں دیئے تھے بلکہ وزیر اعظم عمران خان نے خود 100 دنوں کے بعد تنقید کرنے کا کہا تھا، 100 دن میں صرف چیزوں کی قیمتوں میں تبدیلی آئی ہے، یوں لگتا ہے کہ ہوم ورک نہیں ہے اور منزل کا تعین بھی شاید نہیں کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کے ردعمل میں کہنا تھا کہ عمران صاحب کی تقریر”عذرگناہ، بدتر ازگناہ” تھی، آج سب سے زیادہ جھوٹ بولنے کا میڈل عمران خان کو ہمیشہ کی طرح جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سو دن کی کارکردگی بتانے کے بجائے آئندہ 100 دن کا پروگرام دے دیا اور قوم انتظار کرتی رہی کارکردگی کہاں ہے؟ اس بارے میں کب بتائیں گے؟ لیکن وزیراعظم اب کٹّے، دیسی مرغیوں اور جھینگوں سے معیشت ٹھیک کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے 100 دن پر عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان نے بیان میں کہا کہ حکومت کو 100 دن ہوگئے لیکن قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں نہیں بن سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے 100 دن میں پیڑول، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھا کر عوام پر بوجھ ڈالا، عمران خان نے روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا یا روزگار چھینے کا؟ عوام بے روزگار اور بے گھر ہو رہے ہیں، لوگ رو رہے ہیں۔
زاہد خان نے کہاکہ خیبر پختوانخوا احتساب کمیشن پر ایک ارب روپے خرچ کیے، اب کمیشن پر تالا لگا دیا، سعودی عرب، یو اے ای سے ہونے والے معاہدوں یا امداد پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔