اسلام آباد : چیف جسٹس ثاقب نثار نے منرل واٹرکمپنیوں کو ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ایک ہفتے میں نظام ٹھیک کرلیں ورنہ کمپنیاں بند کر دیں گے اور ریمارکس دیئے دریائے سندھ اور نہرکاپانی منرل واٹرکےطورپراستعمال ہورہاہے، کمیشن رپورٹ دیکھ کردل کرتا ہے تمام کمپنیاں بندکردیں، منرل واٹر کمپنیاں بند ہونے سے کوئی پیاسہ نہیں مرے گا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دریائے سندھ اور نہر کا پانی منرل واٹر کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، کمیشن رپورٹ دیکھ کر دل کرتا ہے تمام کمپنیاں بند کر دیں۔
اس دوران منرل واٹر کمپنی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ واٹر کمپنیوں کو بہتری کے لیے وقت دیا جائے۔
اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پانی کسی صورت چوری نہیں کرنے دیں گے، زیر زمین پانی کی قمیت ہر صورت ادا کرنی ہو گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کمپنیوں کو ایک ہفتے میں نظام ٹھیک کرنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ نظام ٹھیک نہ کیا تو کمپنیاں بند کردیں گے، نظام بہتر کرنے پر ہی کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دیں گے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھاکہ اپنے پیسے بنانے کے لیے لوگوں کو بے وقوف بنایا ہوا ہے، لوگوں کو منرل پانی کی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، کمپنیاں بند ہونے سے کوئی پیاسا نہیں مرے گا۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کے پاس پانی ٹیسٹ کرنے کا نظام نہیں۔
کمیشن کے رکن نے بھی عدالت کو بتایا کہ کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح 1300 فٹ تک پہنچ چکی، پنجاب میں نہریں خشک ہو چکیں، سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگ رہی ہیں، آلودہ پانی بغیر ٹریٹمنٹ زیرزمین بہا دیا جاتا ہے، 7 ارب لیٹر پانی منرل واٹر کمپنیاں ماہانہ نکالتی ہیں، سندھ میں صنعتیں نہری اور دریائے سندھ کا پانی مفت استعمال کررہی ہیں، کوئی صنعت پیسہ دے بھی رہی ہے تو وہ خزانے میں نہیں جاتا۔
کمیشن کے رکن کی بریفنگ پر چیف جسٹس نے ایک بار پھر کہا کہ صاف پانی کی کمپنیاں پیر تک اپنے معاملات درست کر لیں، اگر پیر تک معاملات درست نہ ہوئے تو فیکٹریوں کو بند کر دیں گے۔
اس موقع پر کمپنی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ تمام کمپنیاں پانی کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، فیکٹریاں ٹیوب ویل سے نکالے گئے پانی کا معاوضہ ادا کرنے کو تیار ہیں اور ٹیوب ویلز پر میٹر لگا دیے جائیں، ضائع شدہ پانی پر معاوضہ ادا نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ سیدھی اور اردو میں بات کریں، کیا آپ نے پانی کے پیسے دینے ہیں یا نہیں بتائیں، اس پر وکیل نے کہا کہ ہم پیسے دینے کو تیار ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اربوں روپے کا پانی چوری کر گئے اور لوگوں کو ایک بوند پانی میسر نہیں، 6 ارب لیٹر روز کا پانی استعمال کر رہے ہیں، اس پر ایک پائی بھی ادا نہیں کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو کل زیر زمین نکالے گئے پانی پر قیمت ادا کرنی ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ان کمپنیوں سے کوئی ہمدردی نہیں، گندہ پانی سبزیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور وہ سبزیاں ہم کھاتے ہیں، قوم کے ساتھ دھوکا بند کیا جائے، ہم بچوں کے لیے گندہ پانی استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ ایک ہزار ارب اعتزاز احسن کے موکل سے بھی لوں گا، یہ دونوں رقوم مل جائیں تو دونوں ڈیمز کیلئے کسی اور سے پیسے لینے کی ضرورت نہیں۔
عدالت نے پانی سے متعلق تمام شراکت داروں کا اجلاس آج شام 5 بجے طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج شام کو منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق میٹنگ ہوگی، کمپنیوں کے اعتراضات، ٹیکس ادائیگیوں اور دیگر معاملات کا جائزہ لیا جائے گا، اجلاس میں چاروں ایڈووکیٹ جنرلز، وفاق،منرل واٹر کمپنیوں کے نمائندے بھی شریک ہوں۔