بل کی 7 ارکان نے حمایت اور 5 نے مخالفت کی جس میں احسن اقبال، محمد سجاد، جنید انوار، سردار عرفان ڈوگر اور آغا رفیع اللہ شامل ہیں
بل کی 7 ارکان نے حمایت اور 5 نے مخالفت کی جس میں احسن اقبال، محمد سجاد، جنید انوار، سردار عرفان ڈوگر اور آغا رفیع اللہ شامل ہیں

پاک چین خفیہ دفاعی بندھن کے امریکی دعوے پر چینی سفارتخانہ برہم

پاکستان میں چینی سفارتخانے نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے جس میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ چین نے سی پیک کے نام پر پاکستان کو قرض دے کر اسے اپنے ساتھ دفاعی معاہدے میں باندھ لیا ہے اور اب چین پاکستان بالخصوص گودار بندرگاہ کو اپنی بحری طاقت میں اضافے کے لے استعمال کرے گا۔

نیویارک ٹائمز نے بدھ کو شائع کیے جانے والے ایک طویل مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ 2018 کے آغاز سے پاکستان اور چین دفاعی تعاون کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سی پیک کا حجم بھی بڑھا جبکہ اس دفاعی تعاون کے تحت دونوں ممالک خفیہ طور پر سٹیلتھ طیارے بنا رہے ہیں، اس کے علاوہ 2015 میں چین نے پاکستان کو جن آبدوزوں کی فروخت کا معاہدہ کیا تھا وہ آبدوزیں گوادر سے چینی بحریہ کو ری فیولنگ کے کام آئیں گی۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ امریکہ کے گلوبل پوززیشنگ سسٹم کے مقابلے پر چین اپنا جی پی ایس بیدو کے نام سے بنا رہا ہے جو وہ پہلے پاکستان کو اور پھر دیگر ممالک کو استعمال کے لیے فراہم کرے گا اور چینی نیوی گیشن نظام استعمال کرنے والے ممالک کو مانیٹر کرنا امریکہ کے لیے ناممکن ہو جائے گا جبکہ یہ ممالک چین کی نظروں میں رہیں گے۔

پاکستان میں چینی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن لی جیان ژائو نے جمعرات کو اپنے ردعمل میں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کو سال کا سب سے بڑا لطفیہ قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ مضمون میں اعدادوشمار غلط دیئے گئے ہیں۔ چین اب تک پاکستان کو سی پیک کی مد میں جو قرض دے چکا وہ 6 ارب ڈالر ہے، 23 ارب ڈالر نہیں اور یہ پاکستان کے مجموعی قرضے 96 ارب ڈالر کا 6 فیصد ہے۔ چینی نائب سفیر نے کہاکہ  کیا یہ قرضے کا ٹریپ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک نے پاکستان کو قرض کے چنگل میں دھکیلا۔

دوسری جانب نیویارک ٹائمز کی صحافی ماریہ ابی حبیب نے چینی نائب سفیر کے بیان پر جواب میں کہا کہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کئی ہفتے تک ہمیں نظرانداز کرنے کے بعد چینی سفارتخانے نے تبصرہ تو کیا۔ صحافی نے کہا کہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کو قرض کے عمومی مسئلے کا سامنا ہے اور سی پیک کا قرض بھی اسے ادا کرنا پڑے گا۔ ماریہ ابی حبیب نے کہاکہ 25 ارب ڈالر کے اعدادوشمار قرض اور خودمختار ضمانتوں کو ملا کر ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے طویل مضمون میں سی پیک کو سڑکوں کی تعمیر سے زیادہ دفاعی منصوبہ بنا کر بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور چینی قرض کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ تاہم مضمون میں کوئی غیرمعمولی انکشاف نہیں کیا گیا۔ چین اور پاکستان میں اسٹیلتھ طیاروں کی مشترکہ پیداوار کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا اس کا ذکر گذشتہ برس سے آرہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے مذکورہ طیارے کا نام نہیں لکھا تاہم دفاعی تعاون سے متعل مختلف فورمز پر یہ خبریں گذشتہ برس سے زیرگردش ہیں کہ پاکستان اور چین  جے 20 اسٹیلتھ طیارے مل کر بنانے کے منصوبے پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔