افغانستان میں جون 2018 کی جنگ بندی کے دوران افغان فوجی اور عام شہری عید الفطر کی نماز ادا کر رہے ہیں
افغانستان میں جون 2018 کی جنگ بندی کے دوران افغان فوجی اور عام شہری عید الفطر کی نماز ادا کر رہے ہیں

طالبان اس بار پہلے جیسے سخت گیر نہیں ہوں گے- برطانوی خبر ایجنسی

برطانوی خبر رساں ادارے نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ایک غیرمعمولی انٹرویو جمعہ کے روز جاری کیا ہے۔

خبرایجنسی کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر افغانستان میں امن آتا ہے اور طالبان واپس آتے ہیں تو وہ 1996 کی طرح سخت گیر انداز نہیں اپنائیں گے۔

برطانوی خبر ایجنسی کے بقول طالبان ترجمان نے افغان شہریوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ کسی کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’کسی بھی پولیس، فوج یا حکومت کے اہلکار سے ہماری طرف سے انتقام نہیں لیا جائے گا۔‘‘

اس انٹرویو کے حوالے سے طالبان نے اپنے ٹوئٹراکائونٹ یا دیگر میڈیا نیٹ ورکس پر کوئی بات نہیں۔ چند روز قبل طالبان نے ابوظہبی مذاکرات کے حوالے سے اسی برطانوی خبرایجنسی کی رپورٹوں کی سخت الفاظ میں تردید کی تھی۔

مبینہ انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہاکہ طالبان عورتوں کی تعلیم یا ملاذمت کے خلاف نہیں ہیں تاہم ثقافتی اور مذہبی اقدار کی پاسداری چاہتے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد سے منسوب اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے افغان ہیومن رائٹس کمیشن کے ترجمان بلال صدیقی نے کہاکہ میرے نہیں خیال کہ طالبان کی ذہنیت بدلے گی تاہم انہیں یہ سمجھ آگیا ہے کہ انسانی حقوق کا احترام کیے بغیر بین الاقوامی برادری انہیں قبول نہیں کرے گی۔

یاد رہے کہ رواں برس جون میں طالبان اور کابل انتظامیہ کی فورسز کے درمیان مختصر جنگ بندی کے دوران طالبان اور افغان فوجی آپس میں کافی گھل مل گئے تھے اور انہوں نے ساتھ تصاویر بھی بنوائی تھیں۔ تاہم بعد ازاں اطلاعات آئیں کہ طالبان کمانڈروں نے اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

لڑائی جاری

ذبیح اللہ مجاہد سے منسوب انٹرویو ایک ایسے وقت پر جاری کیا گیا ہے جب افغانستان میں طالبان کا آپریشن الخندق پوری طرح جاری ہے۔

جمعہ کو ذبیح اللہ مجاہد کے ٹوئٹر اکائونٹ سے دعویٰ کیا گیا کہ طالبان نے بگرام ایئربیس پر میزائلوں سے حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔

طالبان ترجمان نے دیگر ٹوئیٹس میں ہرات اور فراہ میں بھی لڑائی کے دعوے کیے ہیں۔