اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس نمٹادیا۔
سپریم کورٹ میں کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران صوبائی حکومت کے نمائندے نے بتایا کہ کوہستان اسکینڈل کی ویڈیو جعلی نہیں تھی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی 3 لڑکیوں کو قتل کردیا گیا اور 2 لڑکیوں نے ملزمان کے خلاف بیان دیا۔
انہوں نے بتایا کہ تمام 9 ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں جبکہ ایک ملزم شمس الدین قتل ہو چکا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ گرفتار ملزمان کے نام ایف آئی آر میں نہیں ہیں اور ملزمان نے سارا ملبہ ہلاک ساتھی پر ڈال دیا ہے۔
وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی لاشیں نالے میں بہہ گئیں، پولیس کو تدفین کی جگہ بتائی لیکن وہاں پولیس نہیں گئی۔
ساتھ ہی درخواست گزار کے وکیل نے کیس کا ٹرائل کوہستان سے ایبٹ آباد منتقل کیے جانے کی درخواست کی۔
جس پر سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ٹرائل منتقلی اور انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس نمٹا دیا۔
واضح رہے کہ 2012 میں کوہستان سے موبائل فون کے ذریعے بنی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی تھی، جس میں تحصیل پالس کی یونین کونسل گدار کے دو بھائیوں کو رقص کرتے اور 5 لڑکیوں کو تالیاں بجاتے دیکھا گیا تھا، جس کے بعد مبینہ طور پر لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا تھا جبکہ ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکوں کے 3 بھائیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
تقریباً 6 برس تک یہ کیس چلنے کے بعد گذشتہ ماہ 3 دسمبر کو اُس وقت ڈراپ سین ہوا جب 4 گرفتار ملزمان نے لڑکیوں کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 3 لڑکیوں کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کے بعد اُن کی لاشیں نالہ چوڑ میں بہا دی گئی تھیں جبکہ 2 لڑکیاں ابھی زندہ ہیں۔
اس کیس کا ٹرائل کوہستان کی عدالت میں جاری تھا جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لے رکھا تھا۔