اسلام آبادہائی کورٹ میں قطری گاڑیوں کی برآمدگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں چلے گی۔
سابق سینیٹر سیف الرحمن کی کمپنی سے قطری گاڑیاں پکڑنے سے متعلق کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی ،ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس عبدالحمید مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اس کیس میں اصل مجرم کون ہے؟۔ ڈائریکٹر کسٹم اینٹلی جنس نے جواب دیا کہ شیخ حمد بن جاسم ہیں لیکن ان کو سفارتی استثنا حاصل ہے۔
30 نومبر کو دفتر خارجہ کی طرف سے کسٹم حکام کو بھیجا گیا جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا جس میں دفتر خارجہ نے گاڑیوں کو ری ایکسپورٹ کرنے کیلئے قطری سفارتخانے کو دو ماہ کا وقت دینے کی سفارش کی۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ دو طرفہ تعلقات کا معاملہ ہے اس لیے قطری سفارتخانے کو اس معاملے میں وقت دیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کسٹم ڈائریکٹر کو تنبیہ کی کہ آپ ملک کے خارجہ امور میں مداخلت کررہے ہیں، کیا آپ قطری سفارت خانے کے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات کا معاملہ ہے،آپ نے خیال نہیں رکھا، ریاست کے اندر ریاست نہیں چلے گی، جس کلیکٹر کسٹم نے یہ گاڑیاں پاکستان لانے کی اجازت دی اس کو گرفتار کرتے۔
کسٹم اینٹلی جنس نے بتایا کہ حمد بن جاسم کے نام 280 گاڑیاں پاکستان میں آئیں جن میں سے 26 پکڑیں لیکن باقیوں کا نہیں پتہ، اس حوالے سے چاروں صوبوں کی پولیس اور کسٹم کلیکٹر کو لکھ دیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ وزارت خارجہ کی تجویز کی روشنی میں ایف بی آرسے رائے لیں۔ عدالت نے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت چھ فروری تک ملتوی کردی۔