سپریم کورٹ میں 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات کی صوبوں کو منتقلی سے متعلق درخواستوں اور ٹرسٹ اسپتالوں کا کنٹرول وفاق سے صوبوں کو دینے سے متعلق کیس کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔ جبکہ اختیارات کی منتقلی کے معاملے پر پانچ رکنی لارجر بینچ آج بھی سماعت جاری رکھے گا۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 18 ویں ترمیم کرکے پارلیمنٹ نے اپنا کام کر دیا، اب 18 ویں ترمیم کی تشریح عدالت کا کام ہے۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اسپتالوں کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جناح ہسپتال کو وفاق کے تحت کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمارت صوبے میں ہونے کا مطلب نہیں کہ صوبوں کو منتقل ہو جائے گی، قانون سازی کےلئے پارلیمان سپریم ادارہ ہے، دنیا بھر میں آئینی ترمیم سے پہلے بحث ہوتی ہے کیونکہ وہ آئین کی تشریح کے لیے اہم ہوتی ہے، پارلیمنٹ میں 18 ویں ترمیم پر بحث نہیں ہوئی، ہمارے ملک میں بغیر بحث کے ترمیم کیسے منظور ہوتی ہیں۔
وکیل رضا ربانی نے کہا کہ یہ درست ہے 18 ویں ترمیم پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث نہیں ہوئی، تاہم ترمیم کا مسودہ بنانے میں نو ماہ لگے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق پر صوبوں یا شہر میں ہسپتال بنانے اور سہولیات کی فراہمی پر پابندی نہیں، صوبے اگر لوگوں کو طبی سہولت نہ دے سکیں تو وفاقی حکومت ہسپتال تعمیر کرے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وفاقی حکومت ہسپتال بنا کر تباہ و برباد کرنے کے لئے صوبے کے حوالے کر دے۔وکیل رضا ربانی نے کہا کہ عدالت یہ مسئلہ حل کرنے کےلئے پارلیمنٹ کو کہہ دے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کرکے پارلیمنٹ نے اپنا کام کر دیا، اب 18 ویں ترمیم کی تشریح عدالت کا کام ہے، یہ معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ کو نہیں بھیج رہے، قانون کی تشریح وہ ہے جو سپریم کورٹ کہے گی۔