توہین رسالت کے مقدمے میں ماتحت عدالت اور لاہور ہائیکورٹ سے سزائے موت پانے کے بعد سپریم کورٹ سے بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ نورین کے مستقبل کا فیصلہ اب نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کریں گے۔
دوسری جانب آسیہ سے متعلق نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ آسیہ کے پاکستان چھوڑنے والے وکیل سیف الملکوک نے جیل میں اس پر ہونے والے مظالم کی کہانیوں کا پول نادانستگی میں کھول دیا ہے۔
آسیہ کی سپریم کورٹ سے بریت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست نومبر کے شروع میں دائر کی گئی تھی جو ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی۔ یہ درخواست مقدمے کے ابتدائی فریق قاری سلام کی جانب سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس پر بینچ نامزدچیف جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ کے دورمیں بنائے جانے کاامکان ہے ۔ 18 جنوری کو ان کے چیف جسٹس کاعہدہ سنبھالنے کے بعدمقدمات کی کازلسٹ میں مقدمہ کوشامل کیا جا سکتا ہے ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ جنوری میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 20 دسمبر 2019 تک چیف جسٹس رہیں گے۔ وہ نواز شریف کی نااہلی، ممتاز قادری کی پھانسی اور آسیہ کی بریت کا فیصلے کرنے والے بینچوں میں شامل رہے ہیں۔
دسمبر سے پہلے رہائی
دوسری جانب آسیہ نورین کے وکیل سیف الملکوک نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کی مؤکلہ کو آئندہ کرسمس یعنی رواں برس کے آخر سے پہلے رہا کر دیا جائے گا۔
سیف الملکوک سپریم کورٹ کےوکیل ہیں جو آسیہ کی بریت کا فیصلہ ہوتے ہی نیدرلینڈ چلے گے تھے۔ انہوں نے ’’میں نے آسیہ کا دفاع کیوں کیا‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جو گلف نیوز سمیت کئی اخبارات میں شائع ہوا۔
اسی مضمون میں سیف الملکوک نے یہ انکشاف بھی کردیا کہ پہلے سامنے آنے والی کہانیوں کے برعکس آسیہ کو جیل میں نقل و حرکت کی خاصی سہولت حاصل تھی۔
اس سے پہلے آسیہ کے حامیوں کی طرف سے بار بار دعوے کیے گئے تھے کہ اسے ایک تنگ کھوٹھڑی میں رکھا گیا ہے اور اس سے نارروا سلوک کیا جاتا ہے۔
تاہم سیف الملکوک نے لکھا کہ ’’ جیل میں اس کے ساتھ ہونے والے مظالم کی اطلاعات کے برعکس آسیہ نے اپنی پہرے داروں کے ساتھ ’بہناپا‘ بنا لیا تھا جنہوں نے اسے ایک ٹیلی ویژن سیٹ رکھنے کی بھی اجازت دے دی اور جو اسے اپنی کوٹھڑی سے باہر طے شدہ وقت سے زیادہ وقت گزارنے دیتی تھیں۔‘‘
سیف الملکوک نے یہ بھی لکھا کہ آسیہ کے ساتھ بہتر رویہ مغربی دباؤ کی وجہ سے تھا گو کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پہرے داروں کا رویہ آسیہ کی ’بہادری اور فطرت‘ دیکھ کر تبدیل ہوا۔
سیف الملکوک نے لکھا کہ دو برس میں حالات سازگار ہو جائیں گے اور وہ پاکستان واپس چلے جائیں گے۔