مسلم لیگ (ن) کے دونوں بڑے رہنماؤں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو قید کے دوران حالیہ کچھ عرصے میں رعایتیں ملی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے میں جیل جانے سے بال بال بچ گئی ہے۔
ان دونوں واقعات کو بعض حلقے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے جوڑ رہے ہیں۔ فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس جمعرات 10 جنوری کو ہو رہا ہے۔ وزارت قانون اس حوالے سے سمری تیار کرچکی ہے جبکہ کابینہ مسودے کا جائزہ لے گی۔
فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی۔
پاکستانی سیاسیت میں گذشتہ 11 برس سے این آر او(قومی مفاہمتی آرڈیننس) کی اصطلاح مستعمل ہے۔ کسی بھی سیاسی معاہدے کے نتیجے میں اپوزیشن کو اگر رعایت ملے تو کہا جاتا ہے کہ این آراو ہوگیا۔
فوجی عدالتوں میں توسیع کے امکانات بڑھنے پر ایک بار پھر سیاسی حلقوں میں دبی دبی آواز میں این آر او کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس توسیع کے بعد این آر او کا شور اٹھنے کا امکان ہے۔
لوگوں کو سب سے زیادہ حیرت مسلم لیگ(ن) کی طرف سے فوجی عدالتوں کی حمایت پر ہے۔ اس کا سبب الیکشن کے بعد مسلم لیگ(ن) کے بعض رہنماؤں اور کارکنوں کی جانب سے ملکی اداروں پر لگائے گئے الزامات ہیں۔
تاہم مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے منگل کو صحافی حامد میر کے ٹی وی پروگرام کے دوران کہہ دیا کہ ان کی جماعت فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت کرے گی اور اس معاملے کو سیاست کی نذر نہیں کیا جائے گا۔ اگرچہ بدھ کو صحافیوں کے سوال پر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پارٹی نے اس سلسلے میں ابھی فیصلہ کرنا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ حکومت قانونی اور عدالتی معاملات چلانے میں نااہل ثابت ہوئی ہے لہٰذا وہ فوجی عدالتوں توسیع ضرور چاہے گی۔
جبکہ مسلم لیگ(ن) کے ہی رہنما رانا ثنا اللہ نے کہاکہ وہ فوجی عدالتوں کے مخالف ہیں اور پچھلی آئینی ترمیم میں درج ہے کہ یہ آخری بار ہے۔ انہوں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کو ٹف ٹائم دے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر اپوزیشن سے رابطوں کا ٹاسک وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو دیا ہے۔ جو اتفاق رائے کے لیے پرامید ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا تعاون حاصل کیے بغیر حکومت کسی صورت ترمیم منظور نہیں کراسکتی لہٰذا اس معاملے پر مزید سودے بازی ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی فوجی عدالتوں میں توسیع پر آمادہ ہے۔ اگرچہ گذشتہ ماہ نوڈیرو میں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اہم اجلاس میں ان عدالتوں میں توسیع کے خلاف قرارداد منظور کی گئی تھی تاہم اب صورت حال تبدیل ہوگئی ہے۔
اسلام آباد میں بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں جیل جانے کے قوی امکانات تھے لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کا تعلق فوجی عدالتوں کی توسیع سے ہوسکتا ہے۔ لیکن ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ 2017 میں بھی فوجی عدالتوں کی توسیع کیلئے 23 ویں آئینی ترمیم پر پیپلز پارٹی نے پس و پیش کے بعد حمایت کردی تھی۔
اپوزیشن کےساتھ ڈیڈلاک ختم ہوچکا، علی محمد خان
مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد میاں نواز شریف اگرچہ قید میں ہیں لیکن لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ان کی حالیہ قید اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی اسیری میں نمایاں فرق ہے۔
اڈیالہ میں انہیں کسی قسم کی سہولت نہیں۔ کوٹ لکھپت میں ان کے ساتھ جیل انتظامیہ کا رویہ کافی نرم ہے۔ اسی طرح شہباز شریف کے معاملے میں طویل مخالفت کے بعد تحریک انصاف نہ صرف اچانک انہیں اے پی سی کا چیئرمین بنانے پر آمادہ ہوگئی بلکہ اسپیکر قومی اسمبلی ان کے پروڈکشن آرڈرز بھی تواتر سے جاری کر رہے ہیں۔
فوجی عدالتوں پر دانشور- سیکورٹی ماہرین تقسیم
فوجی عدالتیں 2015 میں مسلم لیگ(ن) کے دور میں دو برس کے لیے قائم کی گئی تھیں۔ 2017 میں ان کی مدت مزیددو برس کے لیے بڑھا دی گئی جو 6 جنوری کو ختم ہو چکی ہے۔ یہ عدالتیں اپنے پاس موجود مقدمات نمٹا سکیں گی تاہم انہیں کوئی نیا مقدمہ نہیں بھیجا جاسکے گا۔
اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ٹی وی پروگرام میں فوجی عدالتوں کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے لیگی حکومت کے جن اقدامات نے کردار ادا کیا،ان میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی ایک اہم قدم تھا۔
تاہم سیاست اور قانون کے شعبوں سے وابستہ افراد ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری جانب سیکورٹی ماہرین اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ ان عدالتوں میں انصاف کے عمل کا معیار کسی بھی سویلین عدالت سے کم ہے۔
مخالفین میں سب سے اہم نام پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا کہ اگر فوجی عدالتیں چار برس میں مقاصد حاصل نہیں کر سکیں تو 40 برس میں بھی نہیں کر سکیں گے۔ ہنگامی حالات میں کیے جانے والے اقدامات مختصر مدت کے لیے ہونے چاہیں۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی قانونی مشیر برائے جنوبی ایشیا ریما عمر کا کہنا ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں (تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن) میں عوام کے بنیادی حقوق سے دستبرداری کا اتفاق مثبت نہیں سمجھا جاسکتا۔
ریما عمر ان عدالتوں میں توسیع کے خلاف انگریزی اخبارات میں مضامین بھی لکھ چکی ہیں۔
فرحت اللہ بابر، ریما عمر اور ان کے ہم خیال دانشوروں کے فوجی عدالتوں پر دو بڑے اعتراضات ہیں۔ اول یہ کہ ان سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کے ذریعے لاپتہ افراد کے معاملے کو بھی ڈھال فراہم کردی گئی ہے۔
تاہم سیکورٹی ماہرین فوجی عدالتوں کو دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے 16 دسمبر 2018 کوفوجی عدالتوں پر جاری اعدادوشمار کو ان عدالتوں کے حامی اور مخالفین دونوں استعمال کرتےہیں۔
آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ فوجی عدالتوں کو حکومت کی طرف سے 717 مقدمات بھیجے گئے۔ ان میں سے 546 کا فیصلہ ہوا۔ 310 دہشت گردوں کو موت کی سزا سنائی گئی جبکہ 234 کو قید بامشقت ہوئی۔
بیان کے مطابق جن دہشت گردوں کو موت کی سزا سنائی گئی تھی ان میں سے 56 کو پھانسی ہوئی۔ اور اس سے پہلے قانونی عمل مکمل ہوا جس میں اعلیٰ سول عدالتوں میں ان کی اپیلوں پر فیصلے بھی شامل ہیں۔
موت کی سزا سننے والوں کے مقابلے میں پھانسی پانے والوں کی تعداد 18 فیصد بنتی ہے۔
یاد رہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے اپنے خلاف فیصلے پر نظرثانی کے لیے پہلے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ جا سکتے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ فوجی عدالتوں سے پھانسی اور قید کی سزا پانے والے متعدد ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دے چکی ہے۔
فوجی عدالتوں کے مخالفین ان سزائوں کی معطلی کو فوجی عدالتوں کے مبنی برحق نہ ہونے کا ثبوت قرار دیتے ہیں جبکہ عدالتوں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جب فوجی عدالتوں کے اوپر انصاف کا ایک سویلین نظام موجود ہے تو کسی بے گناہ کو سزا یا بنیادی حقوق پامال ہونے کا خدشہ ہی نہیں رہ جاتا۔
اس کے علاوہ فوجی عدالتوں کو مقدمات بھی حکومت کی منظوری سے بھیجے جاتے ہیں۔
2015 میں 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کی توسیع کے خلاف بھی شور اٹھا تھا اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ 5 اگست 2017 کو سپریم کورٹ کے 17 رکن فل بینچ نے فوجی عدالتوں کو درست قرار دے دیا تھا۔ 11 ججوں نے ان عدالتوں کے حق میں 6 نے مخالفت میں فیصلہ دیا تھا۔
فوجی عدالتوں کا ماضی
نواز شریف کے تیسرے دور میں 2015 میں جب فوجی عدالتیں قائم کی گئی تو اس سے پہلے سانحہ پشاور جیسا ہولناک واقعہ ہوچکا تھا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر قوم متفق تھی۔
تاہم نواز شریف کے ہی پچھلے دور میں بھی فوجی عدالتوں کی تجویز سامنے آئی تھی سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی گذشتہ برس ایک انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی فوجی عدالتیں قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ آئین کے منافی متوازی نظام عدل قائم نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس سیعد الزمان صدیقی سپریم کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جنہوں نے ان عدالتوں کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں فوجی عدالتیں پہلی مرتبہ 1953 میں متعارف کرائی گئی تھیں جب لاہور میں ہنگاموں کے بعد فوجی طلب کی گئی تھی۔ یہ سویلیں دور میں فوجی عدالتوں کے قیام کا پہلا واقعہ بھی تھا۔ تاہم یہ عدالتیں لاہور کی مخصوص صورتحال میں محدود مدت کے لیے تھیں۔
جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا الحق کے ادوار میں بھی فوجی عدالتیں کام کرتی رہیں۔