لاہور: سابق وزیر اعظم نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں آج ملاقات کا دن ہے۔ مریم نواز، نواز شریف کی والدہ سمیت اُن کے اہلخانہ ، مسلم لیگی رہنمائوں اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے ملاقات کی۔
جیل میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنمائوں میں دلچسپ گفتگو ہوئی۔
لیگی رہنمائوں سے جیل میں ملاقات کے دوران نواز شریف نے شکوہ کیا کہ جیل میں ٹی وی نہیں مل رہا ۔
جیل حکام نے کہا کہ جیل میں نواز شریف کو ہیٹر دے کر ہم نے مہربانی کی ہے، نواز شریف نے جواب دیا کہ دیکھ لیں یہ ہیٹر دے کر میرے پر احسان کررہے ہیں۔
اس موقع پر احسن اقبا ل نے کہا کہ میاں صاحب آپ کی گرفتاری کے بعد عوام کے پیغام آرہے ہیں۔ نواز شریف کا مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کتنی دیر تک جیل میں پیغام آئیں گے۔
وکیل کی آمد پر نواز شریف نےمسکراتے ہوئے کہا کہ تاریخوں پر تاریخیں ڈلوانے والے آگئے۔
خواجہ آصف نے نواز شریف سے سوال کیا کہ میاں صاحب جیل میں بجلی نہیں جاتی۔ نواز شریف نے جواب دیا کہ خواجہ صاحب ،پتا نہیں کس قسم کی بجلی آتی ہے،ہیٹر گرم نہیں ہوتا۔
ملاقات کے دوران مریم اورنگزیب نے کہا کہ میاں صاحب میں ٹی وی پرآپ کا بھر پور دفاع کرتی ہوں، آپ دیکھتے ہیں ناں جس پر نواز شریف نے قہقہے کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے ٹی وی کی سہولت ہی میسرنہیں۔ جیل میں مجھے ٹی وی ملنا چاہیے لیکن ابھی تک نہیں دیا گیا، روزانہ صرف ایک اخبار دے دیا جاتا ہے وہی پڑھتا رہتا ہوں۔
نواز شریف سے ملاقات کے لیے جیل آنے والے دیگر لیگی رہنماؤں میں مشاہد اللہ خان، رانا ثناء اللہ، ملک ندیم کامران، منشاء اللہ بٹ، عثمان ابراہیم، ماجد ظہور اور دیگر موجود شامل ہیں، جنہوں نے جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی۔
ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم احمد محمود کی نواز شریف سے جیل میں ملاقات 15 منٹ تک جاری رہی۔
اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ پنجاب میں حکومت کہیں نظر نہیں آرہی ، حکومت کا کام ویژن دینا ہوتا ہے لیکن صوبے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں قومی لیڈرشپ پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت نے 24 دسمبر کو انہیں سنائی تھی۔