ادویات کی قیمتوں اضافے کے باضابطہ اعلان سے پہلے ہی ادویات بنانے والی کمپنیاں قیمتوں میں 15 یا 25 فیصد کے بجائے 150 فیصد کے لگ بھگ اضافہ کر چکی ہیں۔
ادھر کراچی کے علاقے کورنگی میں بچے کی دوا خریدنے کے پیسے نہ ہونے پرہفتہ کی شام جواں سال خاتون نے خودکشی کرلی۔ پولیس نے متوفیہ کے شوہر کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کردی ہے۔
20 سالہ عریشہ کورنگی کے علاقے زمان ٹاؤن 100 کوارٹر مچھلی موڑ کے قریبی علاقے میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔
علاقہ ایس ایچ اوانصر عالم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ متوفیہ ایک بچے کی ماں تھی۔ اس کا شوہر ناظم فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ ان کا بچہ کافی دنوں سے بیمار تھا۔
ہفتہ کو ناظم معمول کے مطابق گھر پر آیا توعریشہ نے ایک بار پھر شوہر سے شکایت کی کہ وہ بچے کی دوا نہیں لے کر آیا۔ اس پر دونوں کا جھگڑا ہوا اور ناظم کے بیان کے مطابق وہ گھر سے باہرنکل گیا۔ جب کچھ دیر بعد وہ گھرپہنچا تو عریشہ نے دوپٹہ کی مدد سے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔
ایس ایچ او انصر عالم کا کہناہے کہ متوفیہ کے شوہر کو حراست میں لے لیا ہے جس نے بیان میں بتایا ہے کہ اس کے پاس بچے کی دوائی کیلئے پیسے نہیں تھے جس پر اس کا بیوی جھگڑا ہوااور وہ غصے میں گھر سے باہر آیا اور کچھ دیر بعد جب وہ گھر گیا تو اسکی بیوی خودکشی کرچکی تھی۔ پولیس واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کررہی ہے۔
ادویات ڈیڑھ سو فیصد سے بھی زیادہ مہنگی
دوا کے پیسے نہ ہونے پر خودکشی کا یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب حکومت کچھ ہفتے کے دوران دو مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر چکی ہے۔ تازہ اضافہ 9 فیصد سے 15 فیصد تک کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ادویات کی قیمتوں میں نوفیصد اضافہ کیاگیاتھا۔
تاہم ادویات خریدنے والوں کا کہنا ہے کہ عملی طور پر مارکیٹ میں 15یا 25 فیصد کے بجائے 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
لوگ ادویات کی نئی اور پرانی قیمت والے پیکیجنگ کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں۔ رافع کاکڑ نے کہا کہ گراسٹ نامی دوا کی 100 ملی گرام کی 20 گولیاں جو یکم جنوری 2018 کو 400 روپے میں دستیاب تھیں وہی 20 گولیاں اب 900 روپے میں مل رہی ہیں۔
انہوں نے نئے اور پرانے پیکٹس کی تصاویر شیئر کیں جن پر قیمت نمایاں ہے۔
اسی طرح ادویات کی قیمتوں کی تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں جن پر نئی اور پرانی قیمت واضح ہے۔اگست 2018 میں جس دوا کی قیمت 89 روپے تھی وہ اب 150 روپے کی ہوچکی ہے۔
پیکجنگ پر درج قیمت میں اضافے کے علاوہ ادویات کی قلت پیدا کرکے انہیں بلیک میں فروخت کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نمائندہ امت صفدر بٹ کے مطابق کچھ ادویات کئی 10 گنا اضافی قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں۔ دماغی دوروں کے مرض میں استعمال ہونے والی Phenobarbitan کی مقررہ قیمت 290 روپے ہے تاہم یہ دوہزار روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر صحت عامر کیانی نے ادویات کی قیمت بڑھنے پر مؤقف اپنایا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے کے بعد قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا کیونکہ خام مال مہنگا ہوگیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسپتالوں میں ادویات مفت دی جا رہی ہیں۔
اس سے پہلے پنجاب میں پرائمری اور اسکینڈی ہیلتھ کیئر کی وزیر یاسمین راشد کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ وقتی اضافہ ہے چار سے پانچ ماہ میں واپس لے لیں گے۔