سپریم کورٹ میں آئی پی پیز کیس کی سماعت کے دوران ریماکس دیے کہ یہاں غریبوں سے پیسے لے کر امیروں کو دیے جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ پاکستان میں آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں کے کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ہوئی۔
طلب کیے جانے پر وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب پیش ہو ئے۔
جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ عمر ایوب صاحب یہ کس طرح کے معاہدے ہیں کیا آپ نے کبھی غور کیا ؟ آئی پی پیز کو کتنی اضافی رقم دی گئی ہے۔ یہاں غریبوں سے پیسے لے کر امیروں کو دیے جاتے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ بجلی بنائیں یا نہیں لیکن آپ نے اُن کو پیسے تو دینے ہی ہیں۔ یہاں تو گرڈ اسٹیشنوں میں ہی بجلی نہیں پہنچ رہی ہے۔
وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے مختلف ادوار میں آئی پی پیز کی پالیسی پر عدالت میں بیان دیا کہ حکومت کو کیپسٹی اور انرجی پیمنٹ کرنا ہوتی ہے اور پاکستان میں سرکاری ہی بجلی کی خریدار ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں بجلی کے تمام پلانٹس چلتے ہیں اور سردیوں میں کچھ پلانٹس بند کر دیے جاتے ہیں۔
عمر ایوب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ معاہدوں کے مطابق سستی بجلی خریدنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ سب سے پہلے ہائیڈل، سولر، نیوکلیئر اور سب سے آخر میں تھرمل بجلی خریدی جاتی ہے لیکن ہم پلانٹس سے بجلی نہیں خریدتے ہیں ان کو کیپسٹی پیمنٹ کرتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے عمر ایوب سے استفسار کیا کہ کیا اپریل سے ستمبر تک سارے پلانٹس سے بجلی خریدی جاتی ہے ؟
عمر ایوب نے مؤقف اختیار کیا کہ نومبر سے جنوری تک ہائیڈل بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے آئی پی پیز سے متعلق 15 روز میں حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں سمیت دیگر معاملات کی تفصیلی رپورٹ دی جائے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 15 روز کیلئے ملتوی کر دی۔
Tags آئی پی پیز کیس