سپریم کورٹ کے بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلوں پر عمل درآمد کرانے والے بینچ کے سامنے ملک ریاض نے پیش کش کی ہے کہ اگر ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کےخلاف ملک بھر میں جاری مقدمات ختم کر دئیے جائیں تو وہ 200 ارب روپے جمع کرانے کیلئے تیار ہیں۔اس پیشکش کو سپریم کورٹ نے مستر د کردیا۔
اس سے پہلے ستمبر، اکتوبر اور دسمبر میں تین مواقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ ٹائون سے کہا تھا کہ وہ ایک ہزار روپے جمع کرائے۔ 13 دسمبر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک ریاض سے کہا تھا، صدقہ دے کر جان چھڑاؤ، جو شخص دولت مند ہو اور دولت سے آسانیاں نہ خرید سکے اس سے بڑا بدنصیب نہیں۔
منگل کو بحریہ ٹاؤن نے اپنے خلاف تینوں مقدمات کے فیصلوں کے نتیجے میں 200 ارب روپے جمع کرانے کی پیشکش کی تو جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ صرف کراچی بحریہ ٹاؤن کو 2004 میں 285 ارب روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ عملدرآمد بنچ کے سربراہ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر جرمانے کی رقم 40 فیصد بڑھائی تو رقم 300 ارب سے زائد بنتی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تینوں مقدمات (کراچی۔ مری۔ راولپنڈی) کے الگ الگ فیصلے آئے تھے، کراچی کی الگ پیشکش کریں، اسلام آباد اور مری کی مناسب طریقے سے الگ الگ پیشکش دیں۔
عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی 200 ارب روپے کی پیشکش مسترد کی تو بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ بڑھا کر 250 ارب روپے دینے کیلئے تیار ہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وکیل صاحب یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں، نیب کو کہتے ہیں ریفرنس فائل کرے۔ وکیل نے استدعا کی کہ ایک ہفتے کا وقت دے دیں۔ عدالت نے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ بحریہ ٹاؤن تینوں شہروں میں قائم سوسائٹیوں کےخلاف مقدمات کے فیصلے پر عملدرآمد کے دوران الگ الگ پیشکش تحریری طور پر دے۔
ملک ریاض کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ کراچی میں زمین کی ٹرانسفر اتنی بڑی غلطی نہیں،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ غلطی ایک دو کنال کی ہوتی ہے، ہزاروں ایکڑ کی نہیں۔
عدالت نے سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دی ۔