فریضہ حج ادا کرنے کے لیے حجاز مقدس جانے والے افراد کو سبسڈی دینے یا نہ دینے کا موضوع بھارت کے بعد اب پاکستان میں بھی زیر بحث ہے۔ بھارتی حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے بعد حج پر سبسڈی گذشتہ برس ختم کرچکی ہے جبکہ پاکستان میں حکومت نے اس سال سبسڈی نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اگرچہ سبسڈی نہ دینے کے فیصلے پر تحریک انصاف کی حکومت کو تنقید کا سامنا ہے تاہم وفاقی وزرا اس کے جواب میں جو دلائل دے رہے ہیں لگ بھگ انہی دلائل پر بھارت میں سبسڈی ختم کی گئی تھی۔ گوکہ ان دلائل کے وہاں بھی بخیے ادھیڑے گئے۔
اس طویل مباحثے کا سبب حاجیوں کو سہولتیں دینے کی قدیم روایت اور حتیٰ کے انگریز دور میں بھی حج پر سبسڈی دیا جانا ہے۔
برطانوی راج کے دوران 1932 میں انگریز سرکار نے ’’پورٹ حج کمیٹیز ایکٹ‘‘ منظور کیا تھا جس کے تحت کراچی، ممبئی اور کلکتہ کی بندرگاہوں سے حاجیوں کی حجاز مقدس روانگی کے انتظامات بہتر بنائے گئے اور انہیں سہولتیں دینے کے لیے ان حج کمیٹیوں کو حکومت کی طرف سے مالی امداد دی جانے لگی۔ یہ حج پر سبسڈی کی ابتدا تھی۔
پورٹ حج کمیٹیز ایکٹ 1932 کی منظوری سے چند برس قبل ممبئی میں ایک حج کمیٹی 1927 میں وجود میں آچکی تھی جس کے سربراہ ممبئی کے پولیس کمشنر تھے اور شہر کی اہم مسلمان شخصیات اس کمیٹی کی رکن تھیں۔
تاہم حکومت کی جانب سے 1932 کے ایکٹ کی منظوری سے حج کیلئے سہولتیں فراہم کرنے اور اس پر سبسڈی دینے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
ان کمیٹیوں کو کتنی رقم ملتی تھی اس کا اندازہ 1959 میں حج کمیٹیز ایکٹ میں ترمیم پیش کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے ایک بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔
اس بیان میں بھارتی حکومت نے بتایا کہ آزادی کے بعد کراچی کی حج کمیٹی کا ذکر پورٹ حج کمیٹیز ایکٹ سے نکالنے کیلئے اس میں ترمیم کی گئی لیکن کلکتہ کی کمیٹی کا ذکر برقرار رہا جو بنگال کی تقسیم کے سبب 1948 سے مفلوج ہوچکی ہے اور اس کے اکائونٹ میں 15 ہزار روپے کی رقم موجود ہے۔ جب تک حج کمیٹیز ایکٹ میں مزید ترمیم نہیں ہوتی یہ رقم استعمال نہیں ہوسکتی۔
گویا صرف کلکتہ کی حج کمیٹی کے اکائونٹ میں 1948 سے پہلے 15 ہزار روپے غیراستعمال شدہ موجود تھے جو اس وقت ایک معقول رقم تھی۔
انگریز حکومت کی جانب سے کراچی، ممبئی اور کلکتہ میں قائم کمیٹیوں کے ذریعے حاجیوں کو سبسڈی دی جاتی تھی۔ یہ کمیٹیاں بحری راستے سے ان حاجیوں کو حجاز مقدس تک پہنچنے میں مدد دیتی تھیں۔
اس میں برطانوی راج کا اپنا مفاد بھی تھا۔ حاجیوں کو لانے لے جانے پر Mogul Line نامی شپنگ کمپنی کی اجارہ داری قائم کی گئی جس کی مالک درحقیقت ایک برطانوی کمپنی ٹرنر موریسن تھی۔ موگل لائن کے دو مشہور جہاز ایس ایس علوی اور ایس ایس رضوانی تھے۔ اس دور میں ہر سال تقریباً 36 ہزار مسلمان موگل لائن کے جہازوں سے حج پر جاتے تھے۔
برطانوی حکومت کے علاوہ حیدرآباد کے نظام نے بھی حاجیوں کی سہولت کے لیے انتظامات کر رکھے تھے۔ نظام حیدرآباد کی جانب سے مکہ مکرمہ میں رباط یعنی مفت رہائش کا انتظام کیا گیا۔ یہ لگ بھگ 42 عمارتیں تھیں جو حرم کی توسیع کے سبب بعد میں کم ہوگئیں۔ تاہم اب بھی 3عمارتیں موجود ہیں، جن میں بھارتی حاجیوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
حاجیوں کی بڑھتی تعداد اور عمارتیں کم ہونے کے سبب رباط کی سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں کا انتخاب قرعہ اندازی سے ہوتا ہے اور اس کا انتظام بھارتی ریاست تیلنگانہ کے ہاتھ میں ہے۔ گذشتہ برس یعنی 2018 میں ساڑھے گیارہ سو حاجی یہاں ٹھہرائے گئے جبکہ نظام خاندان کے 20 حاجیوں کو بھی یہاں رہائش دی گئی۔
آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے 1932 کے حج کمیٹیز ایکٹ میں ترامیم کیں تاہم حج کے انتظام کی بنیاد آج بھی یہی ایکٹ ہے جس میں آخری ترمیم 2002 میں کی گئی۔
اندراگاندھی کی حج سبسڈی
بھارت میں نئی شکل میں حج سبسڈی کا آغاز 1973 سے ہوا جب حکومت نے سمندر کے راستے حج پر جانے پر پابندی لگا دی اور لوگوں کو طیاروں کے ذریعے جانے کیلئے کہا۔ اس وقت اندراگاندھی کی حکومت تھی۔ ہوائی جہاز کا کرایہ بحری جہاز کے مقابلے میں زیادہ تھا جس پر حکومت نے اضافی رقم بطور سبسڈی ادا کرنا شروع کردی اور حاجی بحری جہاز کے کرایے جتنی رقم دے کر طیارے سے سعودی عرب جانے لگے۔
یہی وہ سبسڈی تھی جس پر بعد ازاں بھارت میں بحث شروع ہوئی۔ اس بحث کے بھی دو رخ تھے۔
بھارتی پارلیمنٹ میں اسدالدین اویسی سمیت کئی مسلمان ارکان نے سبسڈی ختم کرنے کے حق میں دلائل دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نام نہاد سبسڈی ہے جو دراصل بھارت کی سرکاری ایئرلائن ایئرانڈیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے دی جاتی ہے اور نام مسلمانوں کا استعمال ہورہا ہے۔
مسلمان ارکان پارلیمنٹ کا مؤقف تھا کہ ایئرانڈیا پہلے معمول سے زیادہ کرایے کا اعلان کرتی ہے اور پھر حکومتی سبسڈی لے کر اسے کم کردیتی ہے، سبسڈی سے حاجیوں کو حقیقی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اسد الدین اویسی نے یہ رقم بچا پر مسلمان لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کا مطالبہ کیا۔ سبسڈی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والوں میں دہلی کی شاہی مسجد کے امام سید احمد بخاری بھی شامل تھے۔
سبسڈی کے حق میں دلائل دینے والوں کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت ہندوئوں کے مذہبی میلوں، یاترائوں پر یاتریوں کو سبسڈی دیتی ہے تو حاجیوں کو سبسڈی دینے پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے۔
معاملے کا دوسرا رخ بھارتی سپریم کورٹ میں سامنے آیا۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے 2012 میں فیصلہ دیا کہ سبسڈی 2022 تک ختم کردی جائے۔ فیصلے میں قرآن پاک کی اس آیت کا حوالہ دیا گیا کہ حج صرف صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہے۔
اس فیصلے کے بعد حج سبسڈی بتدریج کم کی گئی اور 2018 میں 85 برس بعد یہ سبسڈی مکمل طور پر ختم کردی گئی۔
پاکستان میں سبسڈی
بھارت میں حج کے انتظامات مرکزی حج کمیٹی کرتی ہے جو وزارت خارجہ کے ماتحت ہے۔ جبکہ پاکستان میں حج انتظامات وزارت مذہبی امور کے پاس ہیں۔
2018 میں وزارت مذہبی امور کے مطالبے پر حج کیلئے حکومت نے فی حاجی 45 ہزار روپے سبسڈی دی تھی اور حج پیکیج شمالی ریجن کے لیے 2لاکھ 80 ہزار جبکہ جنوبی ریجن کے لیے 2 لاکھ 70 ہزار رکھا گیا تھا۔
یہ حج سبسڈی دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یکم جنوری 2018 سے سعودی حکومت نے اپنے ملک میں 5 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس نافذ کیا تھا جس کے نتیجے میں قیام و طعام اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھ گئے تھے۔
رواں برس بھی وزارت مذہبی امور کی جانب سے 45 ہزار روپے فی حاجی سبسڈی کی تجویز دی گئی تھی لیکن کابینہ نے منظور نہیں کی۔
تاہم حج اخراجات بڑھنے کا سبب صرف سبسڈی ختم کرنا نہیں۔ روپے کی قدر گرنے کے سبب بھی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان سے اس برس سرکاری اسکیم کے تحت شمالی زون سے حج پر جانے والوں کو 427,975 روپے اور جنوبی زون سے جانے والوں کو 436,975 روپے ادا کرنا ہوں گے۔ اس میں حج پر آنے جانے کے ریٹرن ٹکٹ کا خرچ شامل ہے۔