بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض کی قانونی مشکلات میں سے ایک حل ہوگئی ہے جبکہ سپریم کورٹ میں ان کے وکیل نے تصدیق کی ہے کہ ملک ریاض کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور کینسر نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی متاثر کیا ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کے سامنے ملک ریاض اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کے حوالے سے دو معاملات پیش ہوئے۔ پہلا معاملہ ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے کاروباری معاملات کے حوالے سے نظرثانی اپیل کا تھا جبکہ دوسرا معاملہ ارسلان افتخار سے جھگڑے کے بعد ملک ریاض کی پریس کانفرنس کا تھا جس میں ملک ریاض پر توہین عدالت کا الزام ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ارسلان افتخار اور ملک ریاض مالک بحریہ ٹاٶن کے درمیان کاروباری معاملات کے حوالے سے داٸر نظر ثانی اپيل کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمان ، کوسین فیصل ایڈووکيٹ، زاہد بخاری ایڈووکيٹ، شیخ احسن الدین ایڈووکيٹ اور دیگر متعلقہ افراد پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہوئی تو بحریہ ٹاٶن کے وکیل کوسین فیصل نے کہا کہ میرے موکل نظرثانی اپيل کی پیروی نہیں کرنا چاھتے اس کو نمٹا دیا جائے۔
ارسلان افتخار کے وکیل شیخ احسن الدین نے کہا کہ ہم بھی اسے نہیں چلانا چاہتے معاملہ نمٹا دیا جائے۔
عدالت نے کہا کہ ایک رکنی شعیب سڈل کمیشن رپورٹ کے بعد فریقین پیروی نہیں کرنا چاہتے.اس بنا پر عدالت اس کیس کو نمٹارہی ھے.اور عدالت نے کیس نمٹادیا۔
تاہم اسی بینچ نے ملک ریاض کی پریس کانفرنس کے بعد بننے والے توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت بھی کی۔
اس دوسرے مقدمے میں ملک ریاض کی جانب سے وکیل ڈاکٹر باسط پیش ہوئے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت سے متعلق از خود نوٹس کیس نمٹایا جاچکا ہے۔
تاہم چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس میں فرد جرم عائد ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر باسط کا کہنا تھا کہ جب فرد جرم عائد ہوئی تو عدالتی حکم نامہ نہیں آیا تھا، عدالتی حکم نامے میں آیا تھا کہ ملک ریاض نے کبھی توہین عدالت نہیں کی،
ملک ریاض نے کہاتھا کہ ان کا معاملہ عدالت کے ساتھ نہیں ارسلان افتخار کے ساتھ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب فرد جرم لگ چکی ہے اب تو سزا ہونا باقی ہے۔
ڈاکٹر باسط نے کہاکہ جناب ملک ریاض شدید بیمار ہیں ان کو کینسر ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس کو قانون کے مطابق پرکھیں گے، ملک ریاض نے عدالتی حاضری سے استثنی کی کوئی درخواست نہیں دی۔
وکیل نے کہاکہ عدالت میں مستند انگریز ڈاکٹروں کی میڈیکل رپورٹس پیش کی ہیں۔
چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ 1آپ بار بار انگریز ڈاکٹروں کا حوالہ کیوں دیتے ہیں، آپ مستند پاکستانی ڈاکٹروں کی رپورٹ پیش کرلیں وہ بھی قبول کرلیں گے۔
اس پر وکیل نے ملک ریاض کی کینسر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملک ریاض پروسٹیٹ کینسر جیسی بیماری میں مبتلا ہیں، ان کی سرجری ہونی ہے، کینسر جیسے مرض نے ملک ریاض کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی متاثر کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو اب اس عدالت سے التوا نہیں ملے گا، التوا صرف دو صورتوں میں ملے گا، ملک صاحب انتقال فرما جائیں یا جج صاحب انتقال کر جائیں۔
ڈاکٹر باسط نے مرض کی تصدیق کرنے کے بعد عدالت سے یہ درخواست بھی کی کہ میڈیا کو ملک ریاض کی بیماری کے بارے میں خبریں چھاپنے سے منع کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیا کے ساتھ آپ کے بہت اچھے تعلقات ہیں آپ کی کوئی خبر نہیں لگتی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ہم ملک ریاض کو 10 ہفتے حاضری سے استثنیٰ دے سکتے ہیں۔ وکیل ڈاکٹر باسط کا کہنا تھا کہ ملک ریاض نے فون پر کہا کہ میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔ملک ریاض کہتے ہیں کہ میں یہ داغ لے کر نہیں مرنا چاہتا کہ میں عدالت کی عزت نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے کہا، آپ لکھ کر دیں ہم الفاظ کو دیکھ کر غور کریں گے۔ ملک ریاض کے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کریں۔ وکیل نے کہاکہ ایک ہفتے میں غیر مشروط معافی جمع کرا دیں گے۔
عدالت نے سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی۔